273

چلا ہوں چھوڑ کر جو میں اثاثہ دیکھتے رہنا

عمار یاسر‘ نمائندہ پنڈی پوسٹ
نہ جانے غالب کی کونسی خواہشات ادھوری رہ گئیں تھیں لیکن مجھے ایسا لگ رہا ہے غالب نے میرے لیے فرمایا تھا”ہزاروں خواہشیں ایسی کہ ہر خواہش پہ دم نکلے”.زندگی کا بیشتر حصہ لاحاصل تمناؤں کی نظر ہو چکا ہے ایک شدت بھری خواہش یہ بھی تھی کہ معروف شاعر محمد ایوب فاروقی مرحوم کی حال ہی میں شائع ہونے والی کتاب”ٹپکا لہو جگر سے”پر قلم کاری کی جسارت کروں ناتجربہ کار ہاتھوں سے نکلے الفاظ کا گٹھ جوڑ فاروقی صاحب کو پیش کروں لیکن میں منتظر تھا کہ کتاب حرف بہ حرف پڑھ لوں پھر کوئی رائے قائم کروں مگر شاید اس خواہش کو بھی میری زندگی میں لاحاصل خواہشات کا درجہ ملنا تھا فاروقی صاحب کے سرہانے پر کھڑے عزرائیل کو پچھلے ایک سال سے مالکِ کل کے ”کن” کا منتظر تھا بلآخر اشارہ ہو گیا ادھر فاروقی صاحب کا دم نکلا اور ادھر یہ خواہش من و من کرب تلے دفن ہو گئی۔
یہ وہ وقت تھا جب اردو ادب‘شعر و شاعری کا ذوق روح میں سما رہا تھادل بھی کچھ خوابوں اور وہموں کے خودساختہ خول سے نیا نیا نکلا ہوا تھا شعر کے اوزان و بحور سے بے نیاز میں بے وزن شاعر‘ادبی پیاس کی تسکین کے لیے اکثر پروفیسر حبیب گوہر صاحب کی خدمت میں حاضر ہوتا تھا وہ مجھے سیکھانے میں اس لیے بھی دلچسپی رکھتے تھے کہ میرا تعلق گاؤں مواڑہ سے ہے ہماری شب و روز کی ملاقاتوں میں اکثر ایک نام کا چرچہ ہوتا تھا ”محمد ایوب فاروقی”.لیکن میں بدنصیب صاحبِ نام کو جانتے ہوئے بھی نام سے لاعلم تھا پھر ایک دن خبر سنی کے محمد ایوب فاروقی کا پہلا شعری مجموعہ”ٹپکا لہو جگر سے”جلد شائع ہونے والا ہے فیس بک پر ایک دوست نوجوان شاعر نوید فدا ستی کی وال پر مبارکباد پڑھی چند الفاظ کے ساتھ ایک تصویر بھی منظر تھی تصویر دیکھی حیرت کے ساتھ ساتھ شرمندگی کے ساحل پر کھڑا میں کافی دیر خود کو کوستا رہا کہ میں جانتے ہوئے بھی فاروقی صاحب کی ادبی شخصیت سے ناآشنا کیسے ہو سکتا ہوں لیکن اب گزرے وقت کو کوسنے پر وقت ضائع کرنے سے بہتر میں نے جانا کہ فوراََ قبلہ فاروقی صاحب کے ہاں حاضری دی جائے ان کے بڑے بیٹے محمد انیس کو آمد کے متعلق مطلع کرنے کے بعد میں حاضر ہو گیا رات کا وقت تھا گاؤں والوں کے لیے ”الطاف” نامی شخص اور اہلِ ادب کے لیے محمد ایوب فاروقی دیکھتے ہی گرجدار آواز میں ” آؤ جی ” بولے گویا آواز کی توانائی نے مجھے شک میں ڈال ڈیا کہ” کیا واقعی الطاف صاحب(محمد ایوب فاروقی) بیمار ہیں؟”.کچھ دیر بعد اس سوال کا جواب اثبات میں ملا جب فاروقی صاحب کو دو بندوں نے مل کر بیٹھنے میں مدد دی کمزور سی ٹانگیں‘معلوم کرنے ہر پتا چلا کہ ہڈیوں کا عارضہ لاحق ہے خیر میری نظر میں اس ”الطاف” کا خاکہ چل رہا تھا جو صحت مند‘چاک وچوبند اور ایک بہترین شکاری تھا ان کے اقارب کے لیے شاید ”الطاف” اور ”ایوب فاروقی” ایک ہی شخصیت کا نام تھا مگر میرے لیے یہ دو اشخاص تھے ایک بھرپور توانا جسمانی طور پر مکمل فِٹ جبکہ دوسرا شخص ایک لاغر‘زندگی کی بازی ہارتا ہوا ایک بڑا شاعر ایک شخص کے ان دونوں رخوں میں”لہجہ” ایک ہی تھاوہی توانائی‘ترنم‘گرج‘ڈھاڑاس دن پہلی بار فاروقی صاحب سے عزلیں سننے کا موقع ملا پرترنم لہجے میں فاروقی صاحب نے عزل سنائی ایک شعر میرے دل کے اندر تک گیا ایسے لگا جیسے عزرائیل کہیں آس پاس کھڑا ہے گھڑی ہاتھ میں اٹھائے وقت مقرر کا منتظر ہے اور فاروقی صاحب اسے دیکھ سکتے ہیں شعر تھا۔
پہ بالش خون کے آنسو سرِقرطاس کچھ غزلیں
چلا ہوں چھوڑ کر جو میں اثاثہ دیکھتے رہنا
خیر! کتاب کی رونمائی کا دن آ پہنچا.6فروری کو گاؤں مواڑہ میں ایک ”ادبی نشست” کا اہتمام کیا گیا اہلِ جہاں حیران تھے ششدری فضاؤں میں چھائی تھی گاؤں مواڑہ اور لفظ ادب کا تال میل اچھے اچھوں کو ہضم نہیں ہو رہا تھا یہ سہرا بھی فاروقی صاحب اپنے سر سجا گئے کہ وہ گاؤں جو شاید تیتر بٹیر‘اسیل مرغ یا اور بہت سے عناصر سے منسوب تھا.6فروری کو یہ تمام وجوہاتِ شہرت ماند پڑ گئیں ادب کا خورشید مواڑہ میں طلوع ہوا.ہم آشفتہ سر,پہلی بار سر بلند بہ فخر تھے۔
فاروقی صاحب ایک نہایت شفیق انسان تھے عشقِ رسول ؐ کے پیاسے تھے جمعہ کی نماز کے بعد جامع مسجد مواڑہ میں صلوٰۃ وسلام کی ذمہ داری فاروقی صاحب کے سپرد تھی ہر جمعہ کو شانِ رسالت میں نئے اشعار سننے کو ملتے تھے دردآشنا ایسے تھے کہ غیروں کے درد پر روتے تھے مجھے فاروقی صاحب کے جنازے پر وہ دن بے ساختہ یاد آیا جب میں اپنے والد گرامی ساجد محمود مرحوم کا جنازہ پڑھ کر روتے ہوئے نکلا جنازہ گاہ سے دو قدم کے فاصلے پر کھڑے اس وقت کے الطاف نے مجھے منٹوں بغل گیر کیے رکھا اس وقت کی شفقت آج بھی یاد آتی ہے تو آنکھ چھلکنے کو آتی ہے ۔
فاروقی صاحب تو دنیا سے رخصت ہو گئے مگر میں انھیں مرا ہوا نہیں کہوں گا شاعر کے الفاظ زندہ رہتے ہیں ان کا پیغام ان کی زندگی کا ثبوت ہے مرحومہ پروین شاکر یاد آ رہی ہیں۔
مر بھی جاؤں تو کہاں لوگ بھلا ہی دیں گے
لفظ میرے,مرے ہونے کی گواہی دیں گے
فاروقی صاحب کا اٹھ جانا گاؤں مواڑہ کا ایک بڑا خسارہ ہے جو شاید کسی سے پُر نہ ہو گا آخر میں فاروقی صاحب کی کتاب”ٹپکا لہو جگر سے” میں سے چند اشعار آپ کی نظر.پہلے وہ
شعر جو کل جنازہ گاہ میں مجھے یاد آ رہا تھا۔
کہاں پھینکیں گی فاروقی یہ موجیں میرے لاشے کو
لبِ سائل کھڑے تم بھی تماشا دیکھتے رہنا
ان کے گھر پر نظر پڑتی ہے تو شعر یاد آتا ہے.
کبھی آباد تھا یہ گھر جو اب ویران لگتا ہے
میری یاد آئے تو یہ در کھلا سا دیکھتے رہنا

مقتل میں مجھ سے قاتل مری آرزو جو پوچھے
مریلب پہ رک نہ جائے تیرا نام آتے آتے
فاروقی ڈر ہے مجھ کو کہیں میری زندگی کی
ارے شام ہو نہ جائے میرا شام آتے آتے

ذرا سی چھیڑ پر ہی رنگ اڑ جاتا ہے جب ان کا
تو میں آنچل کا کونا مسکرا کر چھوڑ دیتا ہوں
ہدف میں وہ پری رُو آج بھی میرے ہے فاروقی
میں بائیں آنکھ کو اپنی دبا کر چھوڑ دیتا ہوں

لگاؤں گا سرِ محشر میں نعرہ یا رسول اللہ
خبر سرکار کی آمد کی جب بیمار تک پہنچی

نبی پاک کی نعت لکھنے کو میرا
قلم سرنگوں سر قلم ہو رہا ہے
مکاں لا مکاں میں انھی کے ہیں جلوے
انھی کے ہی دم سے یہ دم ہو رہا ہے

اللہ پاک فاروقی صاحب کو غریقِ رحمت کرے.آمین۔

خبر پر اظہار رائے کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں