138

گوجرخان میں تحریک انصاف کا پلڑا بھاری آنے لگا

نوید ملک ‘ نمائندہ پنڈی پوسٹ
مسلم لیگ ن قومی الیکشن میں تحصیل گوجرخان کی دونوں صوبائی نشستوں و قومی اسمبلی کی نشست پر فتح حاصل کرنے اور بلدیاتی الیکشن میں سٹی چیئرمین شپ کا تاج اپنے سر سجانے کے باوجود عوامی توقعات پر تاحال پورا اترنے میں ناکام دکھائی دے رہی ہے شہر میں اڑتی گرد اور شام کو کوڑے کرکٹ کے ڈھیروں میں لگی آگ سے اٹھنے والا دھواں جہاں شہریوں کو پریشان کرتا ہے وہاں سرکاری کالجز میں اساتذہ کی کمی پر ارکان اسمبلی کی خاموشی و بے بسی ، وزیر اعلیٰ پنجاب کی طر ف سے پوٹھوہار یونیورسٹی کے قیام کی منظوری کا لیٹر لہرانے کے بعد؟ گوجرخان کو ضلع بنانے کے دبنگ اعلانات ، تحصیل ہسپتال سہولتوں کے فقدان اور کمپیوٹرائزڈ لینڈ ریکارڈ کے دفاتر میں مقامی زمینداروں کی آہ و بکا و عملے کی طرف سے روا زیادتیوں کے باوجود ، سکیم نمبر 1میں پبلک پارک کے افتتاح کے 9ماہ گزرنے کے باوجود تا حال ایک اینٹ تک نہ لگائی جا سکی ، شہر کے لوگ گندا پانی پینے پر مجبوراور ملحقہ دیہاتوں کے باسی عطائی ڈاکٹروں کے نرغے میں، کلیام اعوان و دیگر یونین کونسلوں کی بچیاں علاقے میں گرلز کالج کے قیام کے خواب آنکھوں میں سجائے میڑک میں اعلیٰ نمبروں کے حصول کے باوجود والدین کے محدود مالی وسائل کے سبب حصول تعلیم کے جذبے کو دلوں میں دبانے پر مجبور ، درپیش حالات مسلم لیگی امیداروں کی آئندہ قومی الیکشن میں فتح یابی کی راہ میں حائل ہوسکتے ہیں ۔پاکستان پیپلز پارٹی کی قیادت اپنے سابقہ دور کے جاری ترقیاتی منصوبوں کا ذکر کرتے اور اپنے ان منصوبوں پر لیگی قیادت کے ناموں کی تختیاں لگنے پر عوامی اجتماعات میں ان کا ذکر کر کے عوام کو اپنی طرف مائل کرنے کی کوشش میں سرگرداں ہے، راجہ پرویز اشرف نے بحیثیت وزیر اعظم تحصیل گوجرخان میں ان گنت ترقیاتی منصوبوں کو جاری کیا ، گوجرخان میں پیپلز پارٹی کی قیادت راجہ پرویز اشرف کے ویژن کے مطابق سوئی گیس فراہمی کے علاوہ دیگر منصوبوں کو کامیاب نہیں بنا سکی دیہاتوں میں 22,22فٹ تک چوڑی سڑکیں تو ضرور بنیں لیکن ناقص میٹریل کے استعمال کے سبب وہ عوامی پذیرائی حاصل نہ کر سکیں ، تحصیل میں مقامی باسیوں کو پینے کے لئے صاف پانی کی فراہمی کی غرض سے 200سے زائد مائیکرو ٹیوب ویل و دیگر ترقیاتی منصوبے موثر مانیٹرنگ نہ ہونے کے سبب رائیگاں گئے جس سے قومی خزانے کو نقصان کے ساتھ ساتھ پیپلز پارٹی کے ووٹ بینک پر بھی اثر پڑا، راجہ پرویز اشرف نے بحیثیت وزیر اعظم مصروفیات کے سبب تمام ترقیاتی منصوبوں کے جاری کرنے کا اختیار اپنے برادرراجہ جاوید اشرف کو دے رکھے تھے جو گزشتہ الیکشن میں پارٹی ٹکٹ پر صوبائی اسمبلی حلقہ پی پی 3سے منتخب ہونے والے راجہ طارق کیانی کی علیحدگی کا سبب بھی بنا، راجہ جاوید اشرف پارٹی ورکروں اور عہدیداروں کو کم اہمیت دیتے رہے اور متعدد ترقیاتی منصوبے مقامی لوکل قیادت سے مشاورت کے بغیر جاری کرتے رہے جس سے لوکل قیادت کے دلوں میں دوریاں بڑھیں ،راجہ پرویز اشرف نے تحصیل گوجرخان میں اپنے ساتھ مضبوط صوبائی اسمبلی کے امیدوار سامنے لانے میں تاحال ناکام نظر آرہے ہیں حلقہ پی پی 4سے اپنے بیٹے راجہ خرم پرویز کو پارٹی ٹکٹ پر الیکشن لڑوانے کا فیصلہ سود مند دکھائی نہیں دے رہا کیونکہ ا ایم پی اے جو کسی الگ قوم الگ دیہات اور ذاتی پہچان کے سبب اپنا الگ ووٹ بینک رکھتا ہے جس کا بلاشبہ فائدہ اس کے ساتھ کھڑے پارٹی ٹکٹ پر نامزد ایم این اے کو بھی ہوتا ہے ، اس ضمن میں راجہ خرم پرویز کاذاتی ووٹ بینک نہ ہونے کے برابر ہے ، وزارت عظمی کے دوران راجہ پرویز اشرف کی سرکاری مصروفیات کے سبب وہ ترقیاتی منصوبوں کو براہ راست مانیٹر کرنے سے قاصر تھے اگر اس وقت راجہ خرم پرویز اشرف اس کردار کو بخوبی نبھاتے تو آج علاقے میں پیپلز پارٹی کی سیاسی پوزیشن مضبوط دکھائی دیتی پانامہ لیکس کے فیصلہ کے بعد تحصیل گوجرخان میں پی ٹی آئی کا ووٹ بینک بڑھتا دکھائی دے رہا ہے سابق تحصیل ناظم چوہدری محمد عظیم کے بطور امیدوار قومی اسمبلی آنے سے پیپلز پارٹی اور لیگی امیدواروں کو مشکلات کا سامنا کرنا پڑے گا کیونکہ سابق تحصیل ناظم چوہدری عظیم سیاست کے میدان کے ساتھ تحصیل بھر میں فلاحی و سماجی میدان میں بھی ایک طویل عرصے سے اپنا کردار ادا کر رہے ہیں ، جس کی مثال تحصیل گوجرخان کے دیگر سیاستدانوں میں نہیں ملتی حلقہ پی پی 3سے پی ٹی آئی کے امیدوار برائے صوبائی اسمبلی چوہدری جاوید کوثر شکست کے باجود نہ صرف حلقے میں موجود ہیں بلکہ تحصیل بھر میں متحرک بھی ہیں ، جبکہ پی ٹی آئی کے حلقہ پی پی 4کے سابق امیدوار چوہدری ساجد الیکشن میں شکست کے بعد صرف اب اپنی یونین کونسل دولتالہ و سکھو تک ہی محدود دکھائی دے رہے ہیں راجہ جاوید اخلا ص اور افتخار احمد وارثی عوامی توقعات اور خواہشات کے مطابق ترقیاتی کام کروانے میں ناکام رہے ، راجہ جاوید اخلاص گوجرخان سے سابق وزیر اعطم کو شکست دینے کے باوجود اپنی پارٹی قیادت کی نظروں میں خاطر خواہ مقام اور فنڈز حاصل نہ کر سکے ، جبکہ حلقہ پی پی فور سے مسلم لیگ ن کے ایم پی اے راجہ شوکت عزیز بھٹی جعلی ڈگری کیس میں طویل معطلی کے باوجود اپنے حلقے میں فعال رہے اور بھرپور عوامی رابطے میں رہنے کے سبب اپنے ووٹ بینک اور پارٹی کے ووٹ بینک کو سنبھالے ہوئے ہیں ، بعض ذرائع کے مطابق ان کے بھائی کرنل ریٹائرڈ طارق بھٹی کا پی ٹی آئی میں شمولیت کے اعلان کے پیچھے خاندان کی باہمی مشاورت شامل ہے تاکہ اگر متوقع عدالتی فیصلے میں شوکت عزیز بھٹی کو نااہل کیا جاتا ہے تو پی ٹی آئی کے پلیٹ فارم کے ذریعے اپنے بھائی طارق بھٹی کو سامنے لا کر صوبائی اسمبلی کی نشست بھٹی خاندان میں ہی رہے
پیپلز پارٹی کے راجہ پرویز اشر ف نے اپنی عوامی رابطہ مہم کو شروع کر رکھا ہے لیکن وہ کمزور بازوں کے ساتھ اپنے حلقہ میں مصروف ہیں انہیں NA-51کے قلعے کو فتح کرنے کے لئے اپنے ساتھ دونوں صوبائی حلقوں میں مضبوط اور نامور سیاسی شخصیات کو سامنے لا کر اپنی پوزیشن کو مضبوط کرنا ہوگا، عوامی رائے کے مطابق اگر راجہ پرویز اشرف سابق وزیر اعظم بن کر سرکاری پروٹوکول کے بغیر بحیثیت راجہ پرویز اشر ف حلقے میں انتخابی مہم چلائیں تو وہ پراثر ثابت ہو گیاآئندہ قومی الیکشن میں پی ٹی آئی قومی اسمبلی کی نشست NA-51اور حلقہ پی پی 3میں مضبوط دکھائی دے رہی ہے تاہم تحصیل گوجرخان میں پی ٹی آئی کے بانی رہنماء فرحت فہیم بھٹی اور چوہدری محمد عظیم کے درمیان دھڑ ابندی کے سبب آئندہ قومی الیکشن میں پی ٹی آئی کو نقصان پہنچ سکتا ہے ، جبکہ حلقہ پی پی 4سے پی ٹی آئی کے سابق چوہدری ساجد کسی سیاسی مصلحت و ڈیل کے نتیجے میں آئندہ قومی الیکشن میں حصہ نہ لینے کا اعلان کر کے پارٹی ٹکٹ کرنل طارق بھٹی کو دینے کی حمایت کر سکتے ہیں۔

خبر پر اظہار رائے کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں