160

جنگ زدہ یمن میں ہیضے کی وبا ،عالمی ادارہ صحت کی رپورٹ

طاہر یاسین طاہر
جنگیں تباہی کے سوا کچھ نہیں لاتیں۔یہ جنگیں مذہب کے نام پر لڑیں جائیں یا زمین کے ٹکڑے کے نام پر۔ان کا حتمی نتیجہ ایک تکلیف دہ تباہی ہوتا ہے۔تاریخِ عالم اس پہ گواہ ہے کہ جنگوں کا رزق انسانی بدن ہوتے ہیں۔اس کے باوجود دنیا میں باقی رہ جانے والے آخری آدمی تک جنگیں ہوتی رہیں گی ۔یمن عرب پٹی کا ایک غریب ملک ہے۔ نہ تیل کی فراوانی نہ گیس کے لا محدود ذخائر۔لے دے کے چند قبائل ہیں جنھیں اپنی زمین سے بے پناہ محبت ہے۔قبائلی روایات کے امین یہ لوگ بیرونی جارحیت کے سامنے ڈٹے ہوئے ہیں۔ان کی ثابت قدمی لائق تحسین مگر ان کی غربت قابل رحم ہے۔القاعدہ کے نام پر کبھی امریکہ ڈرون لے کے چڑھ دوڑتا ہے تو کبھی کوئی مقدس عرب ملک اپنے اتحادیوں کے ہمراہ نہتے یمنیوں پر اپنے میزائل داغتا ہے۔
سعودی عرب نے اپنے اتحادیوں کے ہمراہ گذشتہ دو سال سے جس طرح یمن کی تباہی کی، وہ ایک افسوس ناک حقیقت ہے۔اس جنگ کو مذہبی اور مسلکی رنگ دینے کے لیے آل سعود نے سرکاری مفتیوں کو بھی استعمال کیا اور امام کعبہ کی خدمات بھی حاصل کیں۔سعودی عرب کی انتہائی کوشش کے باوجود البتہ پاکستان اس جنگ میں سعودی اتحاد کا حصہ نہیں بنا۔اگرچہ اس جنگ کو مقدس جنگ کا نام دینے کے لیے سعودی مفتیوں نے ایڑی چوٹی کا زور لگایا اور یہ پروپیگنڈا عام کیا کہ، یمن کے حوثی خانہ کعبہ پر حملہ آور ہونے والے ہیں۔دوسال گذر گئے حوثیوں نے ایک پتھر بھی کعبہ کی طرف نہیں پھینکا۔پھر اس پروپیگنڈے کا مقصد کیا ہے؟ یہی کہ تمام مسلم ممالک کی غیر مشروط فوجی حمایت تا کہ خطے میں اپنے سیاسی و غیر سیاسی مفادات کا تحفظ ممکن کیا جا سکے۔قطر سے سفارتی تعلقات کی قطع تعلقی بھی اسی پس منظر میں دیکھی جائے تو بات آسانی سے سمجھ آ جاتی ہے۔کہا جاتا ہے کہ جنگ اور محبت میں سب جائز ہے۔ ہوتا ہو گا۔ محبت میں ہوتا ہو گا۔ مگر جنگ میں سب جائز کیسے ہو گیا؟ کیا رسول اللہ ﷺ نے جنگوں اور غزوات کے دوران،بوڑھوں، عورتوں، بچوں حتی جنگ سے لا تعلق رہنے والوں تک کے لیے اصول مقرر نہ فرما دیے؟پھر کیوں کبھی کسی جنازے پر بم گرا دیے جاتے ہیں تو کبھی کسی شادی والے گھر پر،جب شادی کی تقریبات جاری ہوتی ہیں۔مذہب کی آڑ میں لڑی جانے والی اس جنگ میں کیوں بچوں اور بوڑھوں کومعاف نہیں کیا جا رہا؟کیوں ہسپتالوں اور ایمبولینسز کو جنگی طیارے تاک تاک کر نشانہ بنا رہے ہیں؟کیوں امدادی سامان کے قافلوں پر فضائی حملے کیے جاتے ہیں؟
یمن کی جنگ میں بھوکوں مرنے والوں کی تعداد بھی قریب قریب اتنی ہی ہو گی جتنی سعودی عرب اور اس کے اتحادیوں کی جنگی جارحیت سے مرنے والوں کی ہے۔جنگیں صرف موت نہیں لاتیں ،مرنے سے پہلے ایک تکلیف دہ صورتحال بھی جنگوں کے ہمرکاب ہوتی ہے۔

گذشتہ دنوں عالمی ادارہ صحت کی ایک رپورٹ پڑھ رہا تھا۔تین سے پانچ دن انتظار کیا مگر یہ رپورٹ ایشیائی میڈیا میں کہیں شائع نہ ہوئی۔بی بی سی پہ شائع ہونے والی اس رپورٹ کے مطابق” عالمی ادارہ صحت کا کہنا ہے کہ جنگ زدہ ملک یمن میں ہیضے کی وبا سے اندازا پانچ لاکھ افراد متاثر ہوئے ہیں۔اپریل سے پھیلنے والی اس وبائی مرض سے کم از کم 1975 افراد ہلاک ہوچکے ہیں۔عالمی ادارہ صحت کا کہنا ہے کہ مجموعی طور پر جولائی سے اس میں کمی آئی ہے لیکن اب بھی کم از کم 5000 افراد روزانہ اس سے متاثر ہو رہے ہیں۔ عالمی ادارہ صحت کا مزید کہنا ہے کہ ادویات اور دیگر اشیا کی رسد میں تعطل خاصا طویل ہے اور تقریبا 30 ہزار طبی عملے کو ایک سال سے تنخواہیں بھی نہیں ملیں۔ اقوام متحدہ کے مطابق جنگ زدہ ملک یمن کو اس وقت دنیا کی بدترین ہیضے کی وبا کا سامنا ہے۔”
مذکورہ اعداد و شمار انتہائی تکلیف دہ ہیں۔بے شک یمن کے اس المیے میں عالم انسانیت اپنا وہ کردار ادا کرنے میں ناکام ہے،جو اسے ادا کرنا چاہیے۔ابھی تک اس جنگ کے بیانیے کا جواز تسلیم کرانے میں سعودی عرب اور اس کے اتحادی ناکام رہے ہیں۔یمن اور سعودی عرب تنازع در اصل عربوں کا قدیم قبائلی ،سماجی اور معاشی تنازع ہے۔اسے کعبہ پر حملے کے دفاع سے تعبیر کرنا پرلے درجے کی بد دیانتی ہے۔سارے مسلم ممالک،اس وقت کسی نہ کسی بیرونی و اندرونی خلفشار کا شکار ہیں۔اس کی جہاں کئی وجوھات ہیں وہیں اہم وجہ عالم اسلام میں کسی مدبر اور سیاسی رہنما کی کمی ہے۔ قحط الرجال ہے۔سارے چوغہ پوش اپنے اپنے کم تر مسلکی مفادات کو دین اسلام کی خدمت سے تعبیر کر کے،مسلمانوں کو ہی کافر کافر کہہ رہے ہوتے ہیں۔
علاقائی ممالک،بالخصوص،پاکستان، چین اور روس کوافریقی پٹی کے اس رنج زدہ ملک، کہ جس کا نام یمن ہے،اسے جنگی قہر سے آزاد کرانے میں اپنا کردار ادا کرنا چاہیے، عالم انسانیت کے فیصلہ ساز ممالک اور دنیا کی عدل پسند انسان دوست تنظیموں کوبھی یمن میں رونما ہوتے انسانی بحران پر اپنا مثبت کردار ادا کرنا چاہیے۔ بلکہ شام میں بھی کہ وہاں تو انسانی بحران پیدا بھی ہو چکا ہے۔ ایک دوسری رپورٹ کے مطابق یمن سعودی عرب کی اس جنگ کے باعث ایک کروڑ 70 لاکھ افراد کو خوراک کی کمی کا سامنا ہے۔ہم سمجھتے ہیں اس جنگ کا سیاسی حل تلاش کرنے میں اقوام متحدہ بھی زور دے تا کہ زخم زخم یمنی پھر سے اپنے ملک کی تعمیر و ترقی اور اپنی بقا کے لیے جد و جہد کر سکیں۔

 

خبر پر اظہار رائے کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں