156

خووکو قانون کے سپرد کرنیوالے پولیس مقابلہ کا شکار ہو گئے

راجہ غلام قنبر‘ پنڈی پوسٹ نیوز/کس کو معلوم تھا کہ7فروری2016 کو معمولی رقم کے لین دین پر ہونیوالے جھگڑا کی بنیاد پر بوڑھے والدین کے جواں سال دونوں بچے نظام کی نااہلی و سفاکی کی بھینٹ چڑھ جائیں گے۔ جواں سال معمولی مقدمہ میں ملوث نابالغ لڑکا (مقدمہ کے اندارج کےوقت) اپنے بھائی سمیت “خطرناک مجرم” کی حیثیت سے ماردیاجائےگا ۔ تفصیلات کے مطابق تھانہ کلرسیداں میں 7 فروری 2016 کو محمدشفاعت سکنہ کنوہا نے درخواست دی کے کنوہا بینک چوک بازار میں وہ اپنے بچوں سمیت موجود تھا کہ نفیس فاروق،توقیر فاروق وغیرہ بھی آگئے۔ محمدشفاعت نے نفیس فاروق سے تیس ہزار کی رقم واپس مانگی جس پر فریق غصہ میں آگیا اور اپنے بھائیوں اور ساتھیوں سمیت ڈنڈہ و پتھر کے وار سے شفاعت حسین کو زخمی کردیا۔ محمدشفاعت نے دادرسی کے لیئے تھانہ میں درخواست دی جس کی بنیاد پر مخالفین پر پرچہ درج ہوگیا۔ مخالفین نے اس مقدمہ کا بدلہ لینے اور کراس پرچہ کے چکر میں اسی شام پھر جھگڑا کیا اور محمد شفاعت وپسران پر مسلح حملہ کا پرچہ درج کروادیا جس میں شفاعت اور اس کے دوبیٹوں ناصر ومنصور کونامزد کیاگیا۔ اس مقدمہ سے محمد شفاعت اور اس کابڑا بیٹا ناصرشفاعت بری ہوگئے جبکہ چھوٹا نابالغ بیٹا نہ تو شامل تفتیش ہوا اور نہ عدالت میں پیش لہذا قانونی اعتبار سے منصور مفرور تھا۔ جب دو ملزمان بری ہوگئے تو پھر یہ فیصلہ کیا گیا کہ اب چھوٹے بیٹے کو بھی پیش کرکے اسکی بھی جان خلاصی کروائے جائے۔ جس دن لڑکے نے پیش ہونا تھا اس سے گزشتہ شب وہ گھر پہنچا تو کسی کینہ پرور نے مخبری کردی۔ موقع پر پولیس پہنچ گئی اور منصور فرار ہوگیا منصور کیساتھ رات کی وجہ سے بڑابھائی ناصر بھی بھاگ گیا تاکہ چھوٹا بھائی اکیلے نہ ہو۔ پولیس نے روایتی انداز میں اس موقع پر محمد شفاعت اور ناصر پر مفرور منصور کی مدد وغیرہ کے چکر میں مقدمہ دیدیا یوں دونوں بھائی انتہائی خطرناک “اشتہاری”قرار پائے۔ شفاعت خاندان کی کم علمی و بیوقوفی اور دوسری جانب ہمارے نظام کی نااہلی نے معاملات کو پیچیدہ کردیا۔ دونوں نوجوان مفرور ہوگئے اور کچھ لوگ اس کوشش میں لگ گئے کہ یہ سرنڈر کردیں جب کہ کچھ اس خیال میں تھے کہ پولیس انکا مقو ٹھپ دے۔ اسی دوران مزید ایک بار وہ پولیس کے نرغے سے بھاگ نکلے سبکی سے بچنے کے لیئے غیر ضروری طور پر مقابلہ کو طول دیا گیا اور ایک پولیس والا “مضروب” بھی ہوا جو “اتفاق” سے کنوہا والوں میں سے کسی کا رشتہ دار بھی ہے۔ گزشتہ ہفتے جب صلاح و مشورہ کے بعد یہ مفرور گرفتاری دینے کے لیئے آمادہ ہوگئے اور اسی سلسلے میں رات گئے گھر آئے تو مخبری کی بنیاد پر پولیس پہنچ گئی اور بقول والدین نہتے لڑکوں کو فائر کرکے قتل کردیا گیا۔ دستیاب شواہد کے مطابق مقتولین میں سے ایک نوجوان کی زندگی زخمی ہونے کے باوجود بچائی جاسکتی تھی مگر اس کے مرنے کا انتظارکیا گیا کیونکہ اگر وہ زندہ رہ جاتا تو پولیس کے لیئے شاید کچھ وقتی مشکلات کھڑی ہوجاتیں۔ ویسے ایک بات ہے پولیس کو نقد انعام و تعریفی اسناد تو اور زیادہ ملنی چاہیئے کیونکہ انہوں نے معمولی مقدمہ میں ملوث “انتہائی خطرناک”مجرموں کو کیفرکردار تک پہنچایا باقی جہاں تک تعلق علاقہ میں بڑھتی چوری وڈکیتی کے معلامات کا یا منشیات کی وافر اور کھلے عام دستیابی کا ہے وہ تو کوئی “مسلہ” ہی نہیں پولیس کی نظر میں ۔ارباب اختیار سے گزارش ہے کہ وہ ایسے مشکوک پولیس مقابلوں کی غیر جانبدارانہ ،آزادانہ تحقیقات کروائیں جس سے ایک تو محکمہ پولیس کی کالی بھیڑوں کا خاتمہ ہو اور دوسری طرف لوگوں کا اعتماد قانون نافذ کرنے والے اداروں پر بحال ہو۔ اگر عام لوگوں کا قانون نافذ کرنیوالے اداروں پر اعتماد بحال نہ ہوا تو پھر معاشرہ میں انارکی اورزیادہ ہوگی جس کی آگ کسی بھی گھر کو جلا سکتی ہے۔

خبر پر اظہار رائے کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں