پروفیسر محمد حسین/ پاکستان بے شمار اندرونی اور بیرونی مسائل میں الجھا ہوا ہے مہنگائی بے روز گاری کرپشن اسمگلنگ ،بجلی و گیس کا بحران ذخیرہ اندوزی ‘چور بازاری اور اداروں کی توڑ پھوڑ کے باعث سیاست ‘ معیشت اور انتطامی ڈھانچے سمیت معاشرے کا کوئی بھی شعبہ مستحکم نظر نہیں آرہا ہم بے شمار گھمبیر مسائل سے نمٹنے میں بری طرح الجھے ہوئے ہیں مہنگائی کوہی لیجئے موجودہ حکومت کو برسر اقتدار آئے ڈیڑھ سال کا عرصہ گزر گیا ہے اس عرصہ کے دوران مہنگائی میں پچاس سے دو سو فیصد تک اضافہ دیکھنے میں آیا ہے ضرورت کی تمام اشیاءکی قیمتیں آسمانوں سے باتیں کر رہی ہیں گندم ‘آٹا ‘چینی ‘گھی ‘ چاول ‘گوشت ‘ پٹرول کی مصنوعات دودھ ‘ سبزیوں ‘ دالوں اور بجلی و گیس کی قیمتیں غریب اور متوسط طبقہ کی پہنچ سے دور ہو گئی ہیں اور یہ لوگ دو وقت کی روٹی حاصل کرنے سے قاصر ہیں حکومت پہلے تو بالکل خاموش تماشائی بنی رہی اور غریب عوام کو مہنگائی کی چکی میں پستے ہوئے دیکھتی رہی اور جب عوام کا پیمانہ صبر لبریز ہو گیا تو حکومت کو ہوش آیا اور یوٹیلٹی سٹورز پر اشیاءکی قیمتیں کم کرنے کا اعلان کیا لیکن اس اعلان کا کوئی خاطر خواہ نتیجہ نہ نکلا کیونکہ یوٹیلٹی سٹورز پر ضرورت کی تمام اشیاءکا ملنا ناممکن ہے اگر ایک چیز ملتی ہے تو دوسری چیز غائب ہوتی ہے مثلا اگر آٹا موجود ہے تو چینی غائب ہے اور اگر چینی دستیاب ہے تو گھی کا نام و نشان نہیں ملتا لہذاضرورت اس امر کی ہے کہ یوٹیلٹی سٹورز پر ضرورت کی تمام اشیاءمہیا کی جائیں تاکہ غریب عوام در بدر کی ٹھوکریں نہ کھاتے پھریں اور انھیں بازار سے مہنگے داموں اشیاءخریدنے کی ضرورت نہ پڑے اس سلسلہ میں ایک بڑا مسئلہ یہ بھی ہے کہ ملک میں یوٹیلٹی سٹورز کی شدید کمی ہے بڑے بڑے شہروں میں تو یوٹیلٹی سٹورز موجود ہیں لیکن ملک کے بیشتر قصبوں اور دیہاتوں میں یوٹیلٹی سٹورز نہیں ہیں لہذا قصبوں اور دیہاتوں میں بھی یوٹیلٹی سٹورز کھولنے کی اشد ضرورت ہے تاکہ یہاں کے عوام بھی یوٹیلٹی سٹورزسے کما حقہ استفادہ کرسکیں اس کے علاوہ ایک اور اہم مسئلے کی طرف توجہ دلانا بھی ضروری ہے کہ یو ٹیلٹی سٹورز سے ضرورت کی اشیاءصرف وہی لوگ خرید سکتے ہیں جن کے پاس نقد رقم موجود ہے کیونکہ یوٹیلٹی سٹورز سے ضرورت کی اشیاءنقد رقم دے کر ہی خریدنی پڑتی ہےں اور یہ اشیاءادھار پر نہیں ملتی ہیں اس صورت میں غریب عوام کو بازار سے ہی ادھار پر مہنگے داموں اشیاءخریدنے پر مجبور ہونا پڑتا ہے ۔لہذا ارباب بست و کشادکو اس مسئلہ کی طرف بھی توجہ دینے کی ضرورت ہے اس صورت میں تو آبادی کا تھوڑا سا حصہ ہی یوٹیلٹی سٹورز سے استفادہ کر سکتا ہے اور یوں ملک کی بیشتر آبادی یوٹیلٹی سٹورز سے استفادہ حاصل کرنے سے محروم رہ جاتی ہے اب تو رمضان المبارک کو آمد آمد ہے رمضان المبارک کے آتے ہی مہنگائی کا ایک نیا سونامی طوفان نمودار ہو گا اور ضرورت کی ہر شے کو گویا آگ لگ جائے گی اور مہنگائی اپنے جوبن پر پہنچ جائے گی لہذا رمضان المبارک کے آنے سے پہلے ہی حکومت کو مہنگائی پر کنٹرول کرنے کے لیے کوئی ایسا لائحہ عمل اختیار کرنا چاہیے کہ جس سے مہنگائی میں مزید اضافہ نہ ہو سکے کیونکہ غریب عوام رمضان المبارک میں آنے والی مہنگائی کا مقابلہ کرنے کی سکت کھو بیٹھیں گے اس لیے حکومت کو چاہیے کہ غریب عوام کو جنتا ممکن ہو سکے ریلیف دیا جائے تاکہ عوام رمضان المبارک میں سکھ کا سانس لے سکیں اب آئیے ذرا گندم چینی ‘ گھی وغیرہ کے بحران کا تذکرہ کرتے ہیں ہمارے ملک میں ان اشیاءکے بحران پیدا کرنے میں سرمایہ داروں ذخیرہ اندوزوں اور بڑے بڑے تاجروں کا ہاتھ ہے ان لوگوں نے اشیا
ءکو اپنے گوداموں میں ذخیرہ کر لیا اس غرض سے کہ ان اشیاءکے مہنگا ہونے پر گوداموں سے باہر نکال کر مارکیٹ میں مہنگے داموں فروخت کرکے زیادہ سے زیادہ منافع کمائیں گے ان اشیاءکو گوداموں میں ذخیرہ کرنے کی وجہ سے بازار میں انا اشیاءکی رسد کم ہو گئی اور اس وجہ سے ان اشیاءکی قیمتوں میں معتدبہ اضافہ ہو گیا اور یوں ملک میں بحران پیدا ہو گیا ضرورت اس بات کی ہے کہ حکومت اس سلسلہ میں کوئی ٹھوس اور پائیدار عملی اقدامات اٹھائے اور ایسا طریقہ کار اختیار کرے کہ آئندہ اس قسم کا کوئی بحران پیدا نہ ہو۔
174