اسلام ایسا دستور حیات ہے جس نے زندگی کے ہر شعبے میں رہنمائی کی ہے اسلامی نظام معیشت میں جاگیرداری،سرمایہ داری،اور اشتراکی نطام کی قطعا کوئی گنجائش نہیں بلکہ وہ ان سب سے ارفع و اعلی ہے سرمایہ دارانہ نظام میں دولت کے مالک ایک حکومتی پارٹی کے آلہ کار بن جاتے ہیں یہ ایک ظالمانہ نظام ہے جس میں عوام کی محنت کے مالک دوسرے بن جاتے ہیں اور ان کے خلاف آواز بلند کرنا ایک سنگین جرم ہوتا ہے اسلام نے انسانوں کو آزادی دی ہے وہ انسانوں کو انسان کا غلام نہیں بناتا بلکہ صرف اور صرف اللہ کی اطاعت کا پابند بناتا ہے یہ کتنا بڑا ظلم ہے کہ کمائی کوئی کرے اور اس کا مالک کوئی بن جائے جیسے اشتراکی روسی چینی نظام میں ہے جس طرح اسلام جائز و حلال طریقے پر کمانے کی اجازت دیتا ہے اسی طرح وہ اس بات کا بھی پابند بناتا ہے کہ دولت کو ناجائز طریقے پر استعمال نہ کیا جائے اسلام دولت کو گردش میں رکھتا ہے چند ہاتھوں میں بند نہیں رکھتا جیسے زکوۃ کا نظام ہے اس میں دولت گردش میں آتی ہے اور یتمیوں اور بیواوں بے سہاروں اور غرباء کو سہارا ملتا ہے پھریہ زکوۃ کوئی ٹیکس نہیں ہے بلکہ عبادت ہے یعنی خوشی خوشی ہر صاحب نصاب ادا کرے ہر چیز میں خواہ سونا چاندی ہو خواہ پیدارا ی ہو خواہ معدنیات ہو عیاشی و فضول خرچی قطا حرام ہے دولت دوسروں کے ہاتھوں منتقل ہوجاتی ہے حرام کے ذرائع پر اسلام پابندی لگاتا ہے مثلا جوا ، سٹہ بازی،خیانت و رشوت ،غصب ،کرپشن ،بیت المال میں خیانت ،چوری ڈاکہ،ناپ تول میں کمی،فحاشی و عریانی والے کاروبار ،قحبہ گری ،شراب کا کاروباراور دوسری نشہ آور اشیاء کی خریدو فروخت یہی وہ ذرائع ہیں جن سے معاشی ناہمواری اور ناانصافی ہوتی ہے اور معاشرہ میں خونخواری اور قتل و غارتکا رجحان پیدا ہوتا ہے دولت کو فرض و عبادت زکوۃ کے علاوہ بھی خرچ کرنے کی تلقین کی گئی ہے وہ معاشرے کی فلاح و بہبود مفاد عامہ کے کام ہیں اسلام ذخیرہ کرنے کو سختی سے منع کرتا ہے ۔مزدور کو حکم ہے کہ وہ اپنے فرائض صحیح طریقے سے ادا کرے اگر اس نے صحیح فرائض پورے نہ کئے تو خیانت ہو گی اس کی سزا دنیا و آخرت دونوں جگہ ملے گی اسلام نے سود کی ہر صورت کو حرام قرار دیا ہے اس لئے کے سود سے فحاشی و ناانصافی پیدا ہوتی ہے اللہ تعالی نے اپنی حکمت کاملہ سے دنیا کو عالم اسباب بنایا ہے اور دنیا اور عاقبت دونوں کی بھلائی کا انحصار ان کاموں پر ہے ۔
اللہ تعالی نے فرمایا ’’اور ہم نے دن کو کمائی کا ذریعہ بنایا اور ہم نے اس میں تمہارے لیے کمائی کے ذریعے بنائے تم تھوڑا ہی شکر کرتے رہو‘‘اور رسول ؐ نے فرمایا’’حلال کی طلب جہاد ہے‘‘اور اللہ پیشہ ور بندے کو پسند کرتا ہے ۔وہ راشن کی ذخیرہ اندوزی سے بحران پیدا ہوتے ہیں لوگوں کو ذخیرہ اندوزی کرنے کی وجہ سے قیمتیں بڑھیں گی تو مہنگی کر کے فروخت کریں گے یہ سراسر آپؐ کے قول کی نافرمانی ہے دوسری وجہ لوگوں کا سود پر کاروبار کرنا ہے جوحضرات بنکوں سے قرضہ لیتے ہیں اور سودی معاملات طے کئے جاتے ہیں سود ایک مرض ہے جس کی وجہ سے دولت چند ہاتھوں میں اکٹھی ہوکر رہ جاتی ہے معیشت مرتکز ہو جاتی ہے سود کے بارے میں اللہ تعالی نے فرمایا کہ ’’سود میرے اور حبیبؐ کے ساتھ اعلان جنگ ہے‘‘۔کسی مسلمان کے لیے ہر جائز نہیں ہے کہ وہ جو چاہے تیار کرتا رہے خواہ وہ مادی اور معنوی اعتبار سے انسانیت کے لیے ضرر رساں ہی ہو وہ ایسا نہیں کر سکتا خواہ اس پیداوار سے بہت بڑی کاروباری کامیابی اور بہت بڑا مالی منافع ہی کیوں نہ حاصل کر سکتاہو انسان کی کمائی
اور نفع دوسروں کے نقصان اور خسارے کی قیمت پر حاصل ہو تمباکو اور ضرر رساں نشہ آور چیزوں کی زروعت میں بہت بڑا مالی فائدہ ہی کیوں نہ ہو اس کے عوض ملین اور بلین ہی کیوں نہ کمائے جا سکتے ہوں ۔
مسلمان تجارتی تبادلے کے میدان میں شراب خنزیر ،مردار اور بتوں کی تیاری ،فراہمی جیسی تجارت نہیں کر سکتا وہ کوئی ایسی نشے ایسے کسی شخص ہاتھ فروخت نہیں کر سکتا جس کے بارے میں اس سے علم ہو کہ وہ اس چیز کو سکی شر یا فساد اور دوسروں کو نقصان پہنچانے میں استعمال کرے گا ۔مثلا کوئی شخص انگور کا جوس یا انگور ایسے شخص کے ہاتھ فروخت کرے جس کو وہ چاہتا ہو یہ اس سے شروب تیار کرے گا اسی طرح کوئی شخص کسی ایسے شخص کو اسلحہ فروخت کرے جس کے بارے میں اسے علم میں ہو کہ وہ کسی بے گناہ اور معصوم کو قتل کر گا یا اسے ظلم و زیادتی کے موقع پر کام میں لائے گا شروب کی تیاری کے لیے فراہمی کی غرض کو انگور کی پیداوار بہت بڑا مالی فائدہ دے سکتی ہے مگر اسلام اس منافع کو کالعدم قرار دیتا ہے شراب کے استعمال سے عقل و دماغ اور بدن و اخلاق سب تباہ ہو جاتے ہیں حدیث ہے’’ جب اللہ کو کسی شے نے حرام کر دیا ہے تو اس کی قیمت بھی حرام کر دی ہے انگوروں کی چنائی کے وقت جو شخص اس لئے انگور روک رکھے کہ وہ بعد میں کسی یہودی یا نصرانییا کسی ایسے شخص کے ہاتھ فروخت کرے گا جو اس کو شراب کے لیے استعمال کرتا ہے تو اس مالک کے آنکھوں پر پھینکی جائے گی‘‘۔اناج اور انسانی ضرور ت کی دیگر اشیاء محض اس لئے ذخیرہ کیے رکھنا کہ منافع زیادہ کمائیں گے مارکیٹ میں ان کی قلت رونما ہو گی تو کئی گنا زیادہ قیمت پر فروخت کر گا حدیث میں ہے’’کوئی ذخیرہ نہیں کرتا مگر گنہگار‘‘مسلمان تاجر کے لیے بھی جائز نہیں کہ وہ اپنے سامان کے عیوب و نقائص چھپائے اور خوبیاں اجاگر کر کے بیان کرے یہ دھوکہ اور فریب ہے ۔اسلام نے شاہانہ طرز کے ہر مظہر کو حرام ٹھہرایا ہے مثلاً دسونے اور چاندی کے برتن مردوں اور عورتوں سب کے لیے حرام ہیں اسی طرح ریشم اور سونے کا استعمال مردوں پر حرام قرار دیا گیا ہے ۔{jcomments on}
119