7 ستمبر یوم دفاع ختم نبوت

ستمبر کامہینہ آتے ہی جہاں دیگر حسیں یادیں اپنے ساتھ لاتا ہے وہاں دو اہم یادگار دن یعنی 6 ستمبر اور 7ستمبر کا دن بھی اپنے ساتھ لاتاہے اس دن کے ساتھ مسلمانوں کی ناقابلِ فراموش داستان لازوال یادیں وابستہ ہیں کیونکہ ان دو دنوں میں دودشمنوں کوعبرتناک شکست سے دو چار ہونا پڑا تھا‘ ایک بیرونی دشمن تھاجوملک وقوم پرحملہ آورہواجبکہ دوسرا اندرونی دشمن تھاجومسلمانوں کے ایمان ویقین اور ختم نبوت جیسے بنیادی عقیدہ پرحملہ آور ہو۔ا یوں سمجھ لیجئے اندرونی دشمن رہبر کے روپ میں راہزن دوست کے روپ میں دشمن تھا

جسے ایمانی وقومی شکست سے دوچار ہونا پڑاچھ ستمبر تاریخ کا وہ دن ہے جسے یوم دفاع کے عنوان سے بھی منایا اورسجایاجاتاہے جس تاریخ کو بھارتی فوج رات کی تاریکی کا فائدہ اٹھاتے ہوئے 1965ء میں پاک سرزمین پر خفیہ طور پر اپنے ناپاک عزائم لے کر بزدلوں کی طرح داخل ہوئی جوابی کاروائی میں پاک فوج کے شیر جوانوں نے جرآت بہادری شجاعت دلیری اور جواں مردی سے مقابلہ کیااوردشمن کو پسپا ہونے پر مجبور کیا اسے تاریخ میں سنہرے حروف میں لکھا گیا ہے
پاک فوج کے جوانوں نے ایسی لازوال ناقابل فراموش داستان رقم کی کہ رہتی دُنیا تک یہ داستانیں چکمتی رہیں گئیں بہرحال 6ستمبرکوملک کی جغرافیائی سرحدوں کا تحفظ ہوا جبکہ دوسرا وہ دن جسے 07 ستمبر 1974ء کہاجاتاہے جس خوبصورت دن روشن صبح کوپاکستان کے آئین میں پاکستان کی پارلیمنٹ میں طویل جدوجہد کوشش بحث دلائل کاانبارلگانے کے بعد اور مسلمانوں کی لازوال قربانیاں دینے کے بعد اسلامی جمہوریہ پاکستان میں ختم نبوت کے غدار آقا دوجہاں ﷺ کے دشمن دین اسلام کو نقصان پہنچانے والے قادیانیوں کو غیر مسلم قرار دیا گیا


اس دن آقادوجہاں ﷺ کی ختم نبوت کا دفاع کیاگیا حضور کی ختم نبوت کا تحفظ کیاگیا تاجدارِ ختم نبوت کی عزت وناموس کا پرچم بلندکیاگیا ختم نبوت کی حفاظت کرنے والے مسلمانوں کی قربانیاں رنگ لائیں اور ان کے ایمان تازہ ہوئے ان میں خوشی کی لہر دوڑ گئی جبکہ ان کے مقابل منکرین ختم نبوت کے عزائم خاک میں مل گئے ختم نبوت پر ڈاکہ ڈالنے والے ذلیل ورسوا ہوئے تاج ختم نبوت چھینے والے دنیا وآخرت میں ناکام ونامراد ہوئے اس دن پاکستان کی پارلیمنٹ میں پوری قوم نے ایک ہوکر قادیانیت کے تابوت میں آخری کیل ٹھوک دیا۔7

ستمبر 1974 ء کاپس منظر کچھ یوں ہے کہ جب 29مئی 1974 ء کو ربوہ ریلوے اسٹیشن پر قادیانیت نے ظلم وستم کی انتہاء کرتے ہوئے نہتے مسلمان طلباء کواپنے ظلم وستم اور بربریت کا نشانہ بنایا یہ ربوہ وہی جگہ ہے جو چنیوٹ سے پانچ میل کے فاصلہ پردریائے چناب کے پار واقع ہے سابق وزیر خارجہ ظفراللہ خاں کی سفارش پر ربوہ کی 1033ایکڑ زمین قادیانیوں کو سو سولہ لیز پردی گئی 20ستمبر 1948میں اس کا افتتاح کیاگیاسابق وزیر اعظم پاکستان ذوالفقار علی بھٹو کے دور میں 29 مئی 1974ء کو نشتر میڈیکل کالج کے طلباء پر قادیانیت نے ربوہ ریلوے اسٹیشن پر ظلم وستم کی انتہاء کردی ان پر بے پناہ تشدد کیاگیاجب وہ طلباء شمالی علاقوں کی سیر کرکہ واپس آرہے تھے ان بے گناہ طلباء کا قصور صرف اتنا تھاکہ جب وہ یہاں سے جارہے تھے تو قادیانیت نے اپنا کفریہ لٹریچر ان کو تقسیم کرنا چاہا لیکن طلباء نے غیرت ایمانی کا مظاہرہ کرتے ہوئے منکرین ختم نبوت کے ہاتھ سے لکھاگیا جھوٹ کا پلندہ لینے سے انکارکردیا


واپسی پر ان عاشقان مصطفٰیﷺ پر تشدد کیاگیاجس کے نتیجے میں 30طلباء شدید زخمی ہوگئے اس واقعہ کی خبرپھیلتے ہی پورے ملک میں زبردست مظاہرے شروع ہوگئے دینی جماعتوں کی اپیل پر نہ رکنے والے پرجوش مظاہرے ہونے لگے یہ سلسلہ چلتا رہا حتی کہ 30 جون 1974ء کو قومی اسمبلی میں ایک قرارداد پیش کی گئی 31مئی 1974ء کو اس وقت کے وزیر اعلیٰ حنیف رامے نے ربوہ ریلوے اسٹیشن کی تحقیقات کااعلان کیا لاہور ہائی کورٹ کی ٹیم نے معاونت کی وزیر اعظم نے عوام سے پرامن رہنے کی اپیل کی 8جون کو ریلوے کے گارڈ نذیر احمدنے اپنا بیان ریکارڈ کروایا کہ حملہ آوروں کی تعداد 500 تھی وہ مختلف آہنی اوزار اور لاٹھیوں سے لیس تھے وہ طلباء پر تشدد کرتے اورانہیں معافی مانگنے پر مجبورکرتے اور مسلمانوں کوجھوٹے مرزا کوماننے پرزور دیتے لیکن طلباء ڈٹ گئے

پلیٹ فارم پر ہرطرف چیخ وپکار تھی اور خون تھا ایک اور گواہ صدیق احمدنے کہا کہ یہ ظالم لوگ طلباء پربری طرح تشدد کررہے تھے ان کے جسم زخمی کرنے کے ساتھ ساتھ ان کو برہنہ بھی کررہے تھے اور کانے مرزا کوماننے کاکہہ رہے تھے اس کے علاوہ بھی وہ انسانیت سوز سلوک کیاگیاجوناقابل تحریر ہے بلآخر مسلمانوں کی جدوجہد رنگ لائیں قادیانیت کا مقدمہ پارلمینٹ میں پیش ہوا وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹورح کے دور میں مولانا شاہ احمد نورانی رح نے بل پیش کیا مفتی محمودرح کمیٹی کے سربراہ مقررہوئے دوسرا بل مولانا غلام غوث ہزاروی رح نے پیش کیااس بل پر بحث و تمحیص کی گئی قادیانیت کو موقع دیاگیا کہ وہ اپنے دجل وفریب کو ثابت کرسکیں

لیکن وہ علماء کرام کے دلائل کے سامنے بے بس نظرآئے یہ قرارداد منظور ہوئی یوں پاکستان کے آئین میں ہمیشہ کیلئے 7ستمبر 1974ء کووہ دن طلوع ہوا جب قادیانیت کوغیرمسلم اقلیت قرار دیکر ہمیشہ پاکستان کیلئے قانون کا حصہ بنادیا گیااس دن پارلمینٹ اور پوری قوم نے مرزا قادیانی کو ملت اسلامیہ سے کاٹ کر علیحدہ کرلیا اس قانون پر صرف پاکستانی قوم نہیں بلکہ پوری دنیامیں بسنے والے امت مسلمہ کے ہرہر فرد نے سجدہ شکراداء کیا۔