زندگی کا اصل مقصد کیا ہے؟
زندگی کا اصل مقصد کیا ہے؟
ہم روز صبح بیدار ہوتے ہیں، اپنے دن معمولات
میں مصروف ہو جاتے ہیں — ناشتہ، تعلیمی ادارہ، واپسی، کھانا، اور پھر رات کو سونا۔ اسی چکر میں ہفتے، مہینے اور سال گزر جاتے ہیں۔ لیکن کیا کبھی ہم نے رُک کر یہ سوچا کہ ہم یہ سب کچھ کیوں کر رہے ہیں؟ ہماری زندگی کا اصل مقصد کیا ہے؟ کیا ہم صرف وقت کاٹ رہے ہیں یا کسی بڑے مقصد کے لیے جی رہے ہیں؟
زندگی ایک بےترتیب اتفاق نہیں، بلکہ ایک سنجیدہ تحفہ ہے۔ اور ہر تحفے کی ایک ذمہ داری ہوتی ہے۔ جب تک انسان اپنی زندگی کے معنی تلاش نہیں کرتا، وہ محض ایک کٹھ پتلی کی مانند جیتا ہے، جو دوسروں کے فیصلوں، توقعات اور حالات کے دھارے میں بہتا چلا جاتا ہے۔
دنیا کی تمام بڑی شخصیات — چاہے وہ پیغمبر ہوں، مصلحین، سائنسدان، مصور، ادیب یا دانشور — ان سب کی زندگیوں میں ایک قدر مشترک تھی: وہ جانتے تھے کہ وہ کیوں جی رہے ہیں۔ اُن کے پاس ایک واضح مقصد تھا جس کے لیے وہ ہر دن جیتے، جدوجہد کرتے، تکلیفیں برداشت کرتے اور کبھی ہار نہیں مانتے۔
زندگی کا مقصد ہمیشہ کوئی عظیم کام کرنا نہیں ہوتا۔ بعض اوقات صرف کسی ایک انسان کی زندگی میں مثبت تبدیلی لانا بھی ایک بڑا مقصد ہوتا ہے۔ اگر ایک استاد اپنے شاگرد کو بہتر انسان بنا دے، اگر ایک ماں اپنے بچوں کی تربیت اخلاص سے کرے، اگر ایک فرد کسی بے سہارا کے لیے سہارا بن جائے — تو یہ سب بھی بامقصد زندگی کی مثالیں ہیں۔
لیکن بدقسمتی سے، آج کا انسان مصروف بہت ہے مگر مربوط نہیں۔ وہ کام تو بہت کرتا ہے، مگر اسے معلوم نہیں ہوتا کہ وہ کیا حاصل کرنا چاہتا ہے۔ وہ دوسروں کی کامیابیوں کو دیکھ کر اپنے آپ سے سوال کرتا ہے، مگر اندر سے خالی محسوس کرتا ہے۔ اس خلا کو بھرنے کے لیے یا تو وہ مادی اشیاء جمع کرتا ہے یا سوشل میڈیا پر مصروف رہتا ہے، مگر یہ سب وقتی خوشی دیتے ہیں، اصل سکون نہیں۔
زندگی کا مقصد تلاش کرنے کے لیے سب سے پہلے ضروری ہے کہ انسان خود کو سمجھے۔ اپنی فطرت، اپنی صلاحیتیں، اپنے رجحانات، اپنی کمزوریاں — جب انسان خود سے واقف ہو جاتا ہے، تو دنیا کی ہر آواز سے زیادہ اس کی اپنی آواز اسے واضح سنائی دیتی ہے۔ پھر وہ دوسروں کی تقلید نہیں کرتا، بلکہ اپنی راہ خود بناتا ہے۔
یاد رکھیں، مقصد وہی ہوتا ہے جو انسان کو دھوپ میں بھی حوصلہ دے، تنہائی میں بھی یقین دے اور ناکامی میں بھی امید دے۔ یہ مقصد ہمیشہ بلند اور انسانی بھلائی سے جڑا ہوا ہوتا ہے۔
تو آئیے، آج ہم خود سے ایک دیانت دار سوال کریں:
“میں کیوں جی رہا ہوں/ رہی ہوں؟ میرے جینے کا فائدہ اس دنیا کو کیا ہے؟ اگر میں آج دنیا سے چلا جاؤں تو میرے جانے کے بعد کیا یاد رکھا جائے گا؟”
اگر اس سوال کا جواب واضح نہیں، تو کوئی بات نہیں — زندگی کی اصل خوبصورتی ہی یہی ہے کہ ہم اسے روز نئے انداز سے جینے کی کوشش کریں، روز کچھ نیا سیکھیں، اور ایک دن ایسا آئے جب ہم کہہ سکیں:
“ہاں، میں جانتا ہوں کہ میں کیوں آیا تھا — اور میں نے اپنا حق ادا کیا۔”