چودھری محمد اشفاق
این اے 52 قومی اسمبلی کے حلقوں میں کچھ خاص اہمیت رکھتا ہے کیونکہ یہ وفاقی وزیر داخلہ چودھری نثار علی خان کا انتخابی حلقہ ہے اس حلقہ میں اس وقت پاکستانی تحریک انصاف بھر پور طریقے سے چھائی ہوئی ہے اور آئے روز اپنی جدوجہد میں اضافہ کرتی چلی جا رہی ہے اس حلقہ میں پی ٹی آئی کے حوالے سے 3 امیدوار میدان میں موجود ہیں جن میں سب سے پہلے غلام سرور خان ہیں جو این اے53 سے بھی امیدوار ہیں اور اب وہ این اے 53,52دونوں حلقوں میں سے الیکشن لڑنا چارہے ہیں غلام سرور خان کلر سیداں کے علاقہ میں کافی سارے جلسے اور میٹنگز بھی کر چکے ہیں انہوں نے جتنے بھی جلسے کیے ان میں عوام علاقہ کی ایک بڑی تعداد موجود نظر آرہی ہے وہ اپنی پر جوش تقریروں سے عوام علاقہ کو یہ باور کرانے میں مکمل طور پر کامیاب ہو چکے ہیں کہ چوھدری نثار علی خان کا صرف وہ ہی مقابلہ کر سکتے ہیں ان کے علاوہ کسی کے بس کی بات نہیں ہے اور یہ بھی دیکھنے میں آیا ہے کہ غلام سرور خان کی باتیں لوگوں کے دلوں پر اثر کر رہی ہیں عوام یہ بات پوری طرح محسوس کر چکے ہیں کہ غلام سرور اخان بھر پور صلاحیتوں کے مالک ہیں ان کے علاوہ دوسرے امیدوار کرنل محمد اجمل صابر ہیں جو2013میں بھی الیکشن میں حصہ لے چکے ہیں اور اس دفعہ میں کافی پر امید ہیں کہ پارٹی ان کو ہی ٹکٹ جاری کرے گی کرنل اجمل صابر نے 2013 کے جزل الیکشن مین اچھی کارکردگی کا مظاہرہ کیا تھا تیسرے امیدوار راجہ ساجد جاوید ہیں جن کا تعلق تحصیل کلر سیداں سے ہے وہ عوامی رابطے میں ہیں ان کا دعوی ہے کہ اگر پارٹی نے ان کو زمہ داری سونپی تو ن لیگ اورپیپلز پارٹی کے ووٹ بھی حاصل کرنے میں کامیاب ہو جاہیں گے اور ن لیگی امیدوار کوئف ٹائم دیں گئے اب یہ پارٹی پر منحصر ہے کہ وہ تینوں امیدوار وں میں سے کس کو ٹکٹ جاری کرتی ہے لیکن یہ بات طے ہے کہ پارٹی نے جس امیدوار پر بھی اعتماد کا اظہار باقی تمام اس کی مکمل حمایت کریں گے اور پارٹی ڈسپلن کی پاسداری کریں گے پیپلز پارٹی کی طرف سے ابھی تک کوئی امیدوار سامنے نہیں آیا ہے لیکن یہ بات واضح ہے کہ پیپلز پارٹی اپنا امیدوار ضرور لائے گی کیونکہ اگر وہ ایسا نہ کرسکی تو پارٹی کا سیاسی مستقبل ختم ہو جائے گا جماعت اسلامی کے حوالے سے خالدمحمود مرزا متحرک دکھائی دے رہے ہیں اور ایسا لگ رہا ہے کہ وہ جماعت اسلامی کے پلیٹ فارم سے اکیلے ہی امیدوار ہیں مسلم لیگ ن کی طرف سے چوھدری نثار علی خان ہی واحد امیدوار ہیں جو مسلسل اٹھویں بار اسمبلی میں موجود ہیں ان کی طرف سے اپنے حلقہ میں بے شمار ترقیاتی کام بھی کروائے جا چکے ہیں اور ملکی سطح پر بھی ان کی بے شمار خدمات موجود ہ ہیں جس وجہ سے کسی بھی دوسری سیاسی پارٹی کے امیدوار کے لئے ان کا مقابلہ کرنا بہت دشوار ثابت ہوگا NA-52 بلخصوص تحصیل کلر سیداں سے ان کو ہمیشہ ہی سے ان کی توقع سے بھی زیادہ ووٹ ملے ہیں مگر اس بار ان کی وہ پہلے والی پوزیشن بنتی نظر نہیں آرہی ہے اب ان کی پو زیشن میں بہت فرق آ چکاہے ان کی سخت پالیسیوں کارکنوں اور ووٹرز کو عزت نہ دینا ان کی بات نہ سننا ترقیاتی کاموں میں کرپشن پر آنکھیں بند کر لینا جیسے کاموں کی وجہ سے عوام علاقہ سخت مایوس دکھائی دے رہے ہیں اور اسی وجہ سے ان کی مقبولیت میں مسلسل کمی واقعہ ہو رہی ہے اس کے علاوہ ن لیگ اس وقت بہت بڑے امتحان سے گزر رہی ہے اگر فیصلہ ن لیگ کے خلاف ا ٓ جاتا ہے تو ان اے 52 میں بھی بہت سی اہم تبدیلیاں دیکھنے کو ملیں گی جن کے باعث چودھری نثار علی خان کو مزید مشکلات کا سامنا کرنا پڑے گا دوسری طرف پاکستان تحریک انصاف کے ورکرز اتنی زیادہ محنت کر رہے ہیں کہ آئے روز کوئی نہ کوئی دھڑا پی ٹی آئی میں شمولیت اختیار کر رہا ہے جبکہ اس مہم میں پی ٹی آئی کے لیڈرز بھی سخت تگ ودہ کرتے نظر آرہے ہیں جس وجہ سے ن لیگ کے خلاف گھیرا دن بدن تنگ ہوتا جا رہا ہے اگر پاکستان تحریک انصاف نے اس حلقہ میں دوسری سیاسی پارٹیوں سے اتحاد قائم کر لیا تو مسلم لیگ ن کے امیدوار کو مزید دشواریوں کا سامنا کرنا پڑے گا ق لیگ کے رہنماؤں کی طرف سے بھی یہ اعلان سامنے آیا ہے وہ پانامہ کے فیصلے کے بعد NA-52 میں ایک بڑا سیاسی دھماکہ کریں گے مگر یہ صرف زبانی دعوے ہیں کیونکہ بظاہر اس حلقہ میں ق لیگ کا وجود کہیں بھی نظر نہیں آرہا ہے۔ ا ٓنے والے دنوں میں اس حلقہ کی سیاسی فضا میں مزید گرمی پیدا ہو گی جس کا بہت زیادہ انحصار پانامہ فیصلے پر بھی ہو گا {jcomments on}
286