وہ ممبئی میں ایک غریب گھرانے میں پیدا ہوا تھا غربت کی وجہ سے اسکول میں باقاعدہ تعلیم حاصل نہ کر سکا۔ لہذا اسے اسکول چھوڑنا پڑا اور پیٹ کی خاطر در بدر کی ٹھوکریں اس کا مقدر ٹھہریں۔ لیکن پھر وہ اپنے کام میں ایسا مگن ہوا کہ پیچھے مڑ کہ اس نے نہ دیکھا چالیس سال سے وہ ایک ہی کام سے وابستہ ہے اپنے پیشے میں وہ دنیا کا امیر ترین آدمی کہلایا۔
دنیا کہ تقریباً تمام بڑے اخبارات میں اس کا چرچا ہوا۔وہ اخبارات کی زینت بنا ٹی وی چینلز کاموضوع سخن رہا۔وہ اپنی عمر کے 54 سال بتا چکا ہے۔ عمر کے اس حصے میں بھی پہنچ کر وہ اپنی دھن کا پکا ہے۔وہ چالیس سال سے روزانہ 10سے 12 گھنٹے اپنے پیشے کے لئے مختص کئے ہوئے ہے۔
ویسے بھی کامیابی کے لئے جدوجہد کا ہونا ایک لازمی امر ہے۔ بعض اوقات انسان ایک ہی طرح کی جہت مسلسل سے تھک کر مہینے یا سال میں کچھ وقت کے لئے چھٹی کر لیتا ہے لیکن وہ اپنے کام میں اس قدر مشغول رہتا کہ چھٹی کرنے کا وہ سوچتا بھی نہیں تھا۔ اس کی دولت کا تخمینہ 7.5 کروڑ انڈین روپے بتایا گیا۔ ممبئی میں وہ 1.2 کروڑ روپے کی جائیداد کا مالک ہے۔
اس کے دو بیٹے بھی ہیں جو مہنگے ترین اسکولوں میں زیر تعلیم ہیں۔ اس کے علاوہ اسکی دو دکانیں بھی ہیں جن سے وہ تیس ہزار روپیہ ماہانہ کرایہ بھی لیتا ہے۔ اس کا نام بھرت جین ہے اور وہ پیشے کے اعتبار سے بھکاری ہے۔ یہ خبر جونہی مقامی میڈیا کی زینت بنی تو پل بھر میں بین الاقوامی میڈیا پہ یہ نمایاں پلیٹ فارمز پر مشتہر ہو گئی جن میں انڈیا ٹوڈے،دی اکنامک ٹائمز، دی ویک ان، ہندوستان ٹائمز قابل ذکر ہیں۔
بھرت جین انڈیا کے شہر ممبئی کے رہنے والے ہیں اور وہ اس پیشے سے بچپن سے ہی وابستہ ہیں۔ آگے بڑھنے سے پہلے میں قارئین کے سامنے ایک واقعہ پیش کر نا چاہوں گا۔ آج سے چند سال قبل راولپنڈی سے کراچی جانے کے لئے عازم سفر تھا تو حیدر آباد سے پہلے ٹرین کے ڈبے جس میں خاک نشین سوار تھا دو بہن بھائی نظر آئے جو بے چارے دونوں ہی ٹانگوں جیسی نعمت سے محروم تھے۔
عمر لگ بھگ گیارہ سے بارہ سال تھی۔ میلے کچیلے کپڑوں میں ملبوس یہ دونوں بچے شکل سے معصوم لگ رہے تھے۔دونوں کو دیکھ کے خاکم بدہن کا دل پسیج گیا ساتھ بیٹھے مسافر بھی ہمدردی جتاتے نظر آئے۔ دونوں بہن بھائی اپنی معصوم اداؤں اور بھولی سی آواز میں صدا لگا رہے تھے کہ ہم دونوں ٹانگوں سے معذور ہیں لہذا اللہ کے نام پہ ہماری کچھ مدد کی جائے۔
دل کے کونے کھدرے میں چھپے ہمدردی کے جذبے نے ساتھ بیٹھے مسافروں کے ساتھ ساتھ مجھے بھی اشتعال دلایا اور استطاعت کے مطابق کچھ نہ کچھ ان بے چارے معذور بچوں کو دے دیا اور اپنا فرض ادا کر کے دل ہی دل میں مطمئن ہوئے کے فرض ادا کر دیا ہے۔
قارئین حیدر آباد اسٹیشن کے قریب جب گاڑی پہنچی تو رکنے کیلئے گاڑی کی رفتار سست ہوئی۔ میری حیرت کی انتہا نہ رہی کہ جب وہ دونوں بہن بھائی ٹرین کی سست روی کا فائدہ اٹھاتے ہوئے کسی چھلاوے کی مانند یہ جا وہ جا چھلانگ لگا کر ٹرین سے نیچے کود گئے۔ ان بچوں کو اس پیشہ پہ کس نے لگایا؟ اگر ان کے ماں باپ یا معاشرے نے ہی ان کو اس آگ میں جھونک دیا تو ان کو اس آگ کا مزید ایندھن کون فراہم کر رہا تھا یا کر رہا ہے۔ کہیں میں یا آپ تو نہیں؟
کیا میں اور آپ ایسے لوگوں کی ضرورت پوری کر رہے ہیں یا ایک بیمار معاشرے میں پھیلتے ہوئے تعفن کو مزید فروغ دے رہے ہیں۔ بھیک مانگنا معاشرے کا ناسور ہے جو دن بدن ہمارے معاشرے میں پھیلتا جا رہا ہے۔ آپ بس سٹاپ پہ کھڑے ہوں یا سبزی کی دکان پہ، ریلوے اسٹیشن پہ ہوں یا کسی ہسپتال میں بھکاریوں کی ایک کثیر تعداد آپ کو ہاتھ پھیلائے مانگتی نظر آئے گی۔ 2023
میں وزارت اورسیز پاکستان کے سیکرٹری ذوالفقار حیدر نے سینٹ میں بیا ن کرتے ہوئے بتایا کہ 90 فیصد بھکاری جو بیرون ممالک گرفتار ہوئے وہ پاکستانی تھے۔ کیا یہ بھکاری پاکستان کا نام روشن کر رہے ہیں اور مقامات مقدسہ جیسا کہ ایران، عراق اور سعودی عرب میں جیب کتروں کی ایک نمایاں تعداد جو ان ممالک میں گرفتار کی گئی ان کا تعلق بھی پاکستان سے تھا۔ اور اب ان جیسے پیشہ ور بھکاریوں کا اگلا نشانہ جاپان ہے۔کیا اس سے وطن عزیز کی شان میں اضافہ ہو رہا ہے۔ کیا یہ اتنا ہی باعزت پیشہ ہے کے اسے اپنایا جائے۔
پاکستان کی 230 ملین آبادی میں 38 ملین لوگ بھکاری ہیں۔ جو سالانہ بھیک مانگ کر 42 ارب ڈالر عوا م کی جیب سے نکال لیتے ہیں جو کہ پاکستان کے کل بجٹ سے 12 فیصد زیادہ ہے۔یہ بھکاری روزانہ عوام کی جیبوں سے 32 ارب روپے بٹورتے ہیں۔ آپ کو یہ جا ن کر حیرت ہو گی کہ دنیا میں ایسے ممالک بھی ہیں جہاں بھکاری نام کی مخلوق ناپید ہے جیسا کہ جاپان، آسٹریلیا، سنگا پوراور فن لینڈ وغیرہ۔
آگے بڑھنے سے پہلے جذبہ ایمانی جنجھوڑنا مناسب خیال کروں گا وطن عزیز اسلام کے نام پہ حاصل تو کیا گیا لیکن بدقسمتی سے ہم بجائے کے اپنے اعمال و کردار سے دوسروں کو اسلام کی طرف راغب کریں انہیں اپنی فرسودہ رسومات و اقدار کی وجہ سے اسلام سے متنفر کر رہے ہیں۔ اور بدقسمتی سے ہمارا معاشرہ اس طرح کی لایعنی اقدار سے تعفن زدہ ہو رہا ہے۔
حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ نے فرمایا: ”جو آدمی (پیشہ ور گداگر) لوگوں سے ہمیشہ سوال کرتا اور بھیک مانگتا رہتا ہے، وہ قیامت کے روز ایسی حالت میں آئے گا کہ اس کے چہرے پر گوشت تک نہ ہو گا۔“(بخاری و مسلم)
جہاں تک ہو سکے محنت کرکے رزق حلال کمانے اور درست درازی سے گریز کا تعلق ہے تو رسول اللہ نے فرمایا:”اگر کوئی آدمی صبح کے وقت اپنی پیٹھ پر ایندھن اٹھا لائے (اسے بیچ کر حاصل ہونے والی رقم سے)صدقہ کرے، اور لوگوں سے (مانگنے سے مستغنی ہو جائے، یہ اس کے لیے اس بات سے بہتر ہے کہ کسی (غنی)آدمی سے مانگے، وہ چاہے اسے کچھ دے چاہے نہ دے۔
سیدنا انس بن مالک ؓ سے مروی ہے کہ ایک انصاری نبی کریم ؐ کی خدمت میں آیا وہ کچھ مانگ رہا تھا۔ آپ نے فرمایا: ”کیا تمہارے گھر میں کچھ نہیں ہے؟“ کہنے لگا کیوں نہیں، ایک کملی سی ہے، اس کا ایک حصہ اوڑھ لیتے ہیں اور کچھ بچھا لیتے ہیں اور ایک پیالہ ہے جس سے پانی پیتے ہیں۔
آپ نے فرمایا: ”یہ دونوں میرے پاس لے آؤ۔“ چنانچہ وہ لے آیا۔ تو رسول اللہ نے انہیں اپنے ہاتھ میں لیا اور فرمایا: ”کون یہ چیزیں خریدتا ہے؟“ ایک شخص نے کہا: میں انہیں ایک درہم میں لیتا ہوں۔ آپ نے فرمایا: ”ایک درہم سے زیادہ کون دیتا ہے؟“ آپ نے دو یا تین بار فرمایا۔ ایک (اور) شخص نے کہا: میں ان کے دو درہم دیتا ہوں۔ چنانچہ آپ نے دونوں چیزیں اسے دے دیں اور دو درہم لے لیے اور وہ دونوں اس انصاری کو دے دیے اور اس سے فرمایا: ”ایک درہم کا طعام خریدو اور اپنے گھر والوں کو دے آؤ اور دوسرے سے کلہاڑا خرید کر میرے پاس لے آؤ۔
“ چنانچہ وہ لے آیا تو آپ نے اس میں اپنے دست مبارک سے دستہ ٹھونک دیا اور فرمایا: ”جاؤ! لکڑیاں کاٹو اور بیچو اور پندرہ دن تک میں تمہیں نہ دیکھوں۔“ چنانچہ وہ شخص چلا گیا، لکڑیاں کاٹتا اور فروخت کرتا رہا۔ پھر آیا اور اسے دس درہم ملے تھے۔ کچھ کا اس نے کپڑا خریدا اور کچھ سے کھانے پینے کی چیزیں، تو رسول اللہ نے فرمایا: ”یہ اس سے بہتر ہے کہ مانگنے سے تیرے چہرے پر قیامت کے دن داغ ہوں۔ بلاشبہ مانگنا روا نہیں ہے سوائے تین آدمیوں کے ازحد فقیر محتاج خاک نشین کے، یا بے چینی میں مبتلا قرض دار کے، یا دیت میں پڑے خون والے کے (جس پر خون کی دیت لازم ہو)۔سنن ابی داؤد حدیث نمبر1641۔
چینی کہاوت ہے کہ کسی کو کھانے کیلئے مچھلی نہ دو بلکہ مچھلی پکڑنے کا کانٹا دو تا کہ وہ مستقلاً اپنے لئے پیٹ کے ایندھن کا بندوبست کرے اور بھیک مانگنے جیسی لعنت سے بچ سکے۔ دیکھا جائے تو یہ چینی کہاوت اسلامی اصولوں کے عین مطابق ہے۔ لیکن وطن عزیز کے باسی ان اصولوں سے غالباً کوسوں دور ہیں اور ارباب اختیار تو شاید اس بات کو بالکل پسند نہ کریں۔
آج ہم دنیا میں منگتے کہلاتے ہیں۔ ہم بھکاری بن چکے ہیں اور بھرت جین کی طرح باقاعدہ پروفیشنل بھکاری۔ امریکی پراسیکیوٹر رابرٹ ہوران کا وہ جملہ آج بھی ذہنوں پہ ہتھوڑے برساتا ہے جب اس نے کہا تھا کہ پاکستانی پیسے کیلئے آپ پاکستان کے حکمرانوں پے نظر دوڑا یں تو ہر کوئی ہی مانگتا پھر رہا ہے کشکول ہاتھ میں اس قدر مضبوطی سے تھامتے ہیں کے پھسلنے ہی نہیں دیتے۔
بتایا جاتا ہے کہ پاکستان کا بچہ بچہ مقروض ہے۔نہ جانے کس کے پر گوشت ہو گا اور کس کے پر نہیں۔زیادہ تر یہ خیرات ان ہی بھکاریوں کو دی جاتی ہے۔جو محنت سے عاری اور پیشہ ور ہوتے ہیں۔جو نہ صرف معاشرے پہ بلکہ حکومت وقت پہ بھی بوجھ ہیں۔یہ ہی نہیں بلکے یہ دوسرے لوگوں کے لیے بھی ایسی لعنت کے محرک بنتے ہیں۔
حکومت اگر انکو رجسٹر ڈ کر کے انکے ہاتھوں میں کشکول کی بجائے کلہاڑے تھما دے اور انکے بھیک مانگنے پر پابندی عائد کر دے۔تو نہ صرف معاشرے سے اس ناسور کا خاتمہ ہو گا بلکہ لوگ محنت کی طرف راغب ہوں گے اور 42 ارب ڈالر بھکاریوں کی نظر ہونے سے شاید بچ جائیں۔جو شاید حکمرانوں کو جھولی پھیلانے سے گریز کرنے میں کسی حد تک معاون ثابت ہو ں۔
شاید چہروں کے گوشت سلامت رکھنے میں معاون ثابت ہوں۔شاید اس ملک کے لوگوں کو محنت کرنے کا راستہ دکھا سکیں۔شاید ہمIMF اور WORLD BANK کے چنگل سے بچ جائیں۔ اور بین الاقوامی سطح پہ ایک خود مختار اور عظیم الشان قوم بن کر ابھر سکیں۔محنت ہی وہ واحد کنجی ہے جو ہر دروازے ہر قلعے کے قفل کھول سکتی ہے اللہ تبارک تعالیٰ فرماتا ہے۔(ترجمہ)”اور یہ کے انسان کو صرف وہی ملتا ہے جسکی وہ سعی کرتا ہے“۔