59

پاکستان نے عوام کی غربت دور کرنے کے لئے قرض لینے کو اپنا مقدر سمجھ لیا ہے

پاکستان نے جب سے اپنے منصوبوں اپنی اقتصادی بحالی کے پرو گراموں اپنی معیشت کی ترقی غریب مفلوک الحال عوام کی غربت دور کرنے کے لئے قرض لینے کو اپنا مقدر سمجھ لیا ہے اور اپنے وسائل اپنی زمینوں اپنے محنت کشوں اپنے صنعتکاروں اپنے تاجروں کے لئے آسانیاں فراہم کرنے اور اپنی زمینوں کی فی ایکٹر پیداوار میں اضافے کے پروگرام پر عمل کرنے اپنی افرادی قوت پر معمولی سرمایہ کاری کرنے اُن کی تربیت کرنے ملکی ترقی میں اُن کو استعمال کرنے یا اُن کو باآسانی بیرونی ملک ملازمت دلوانے یا زیادہ سے زیادہ زر مبادلہ ملک میں لا نے کا پلان بنانے یا اپنی زمینوں کھیتوں چھو ٹی بڑی پہاڑیو ں ندی نالوں اور اپنے کروڑوں نوجوانوں کو ہنر مند بنانے کے بجائے صرف اور صرف قرض کے حصول کی راہ اپنا رکھی ہے تو اس طرح ہم پر مزید قرض کا بار بڑھتا ہی چلا جا رہا ہے

columns

اور قرض کا بار جب با ربار بڑھتا ہی چلا جائے تو یہ راستہ یہ منزل ترقی کی طرف نہیں جاتی ہم معاشی ترقی کے مثبت اشاروں سے نکل کر شرح افزائش کے منفی عدد کی جانب بھی گئے اور واپس بھی آئے دیگر ملکوں کی طرح اب ہمارے لئے شرح ترقی کا حصول پانچ یا چھ فی صد یا دس فی صد خواب وخیال بن کر رہ گیا ہے بن کر رہ گیا ہے 1960کی دہا ئی میں ہماری شرح ترقی دس فی صد تک بھی چلی گئی تھی تو اس کی بنیاد قرض گیری نہیں تھی قرض سے یہ مقاصد حاصل نہیں ہو سکتے اس قرض کے بار کو ہر با ر کم سے کم کرنا ہو گا

ہماری حکومتیں قر ضوں کو بڑھا رہی ہیں قرضوں کا سُود ادا کرنے کے لئے بھی مزید قرض لینا پڑتا ہے اس طرح ہم قرضوں سے کبھی باہر نہیں نکل سکتے ہم نے اپنا نظام زرکہ وہ بنکوں سے مل کر قرض پر قرض لینا چلا جاتا ہے پھر اُس پر سود چڑھتا چلا جا تا ہے پھر اُس کی ادائیگی کے لئے مزید دو چار بنکوں سے قرض لیتا ہے اوریوں ہم غیر محسوس طریقے سے کسادبازاری سے نکل کر شدید ترین کسا دبازاری کی جانب تیزی سے جارہے ہیں اور آگے چل کریہ راستہ ڈیفا لٹ کی طرف بھی جاسکتا ہے کسی زمانے میں قرض لینا بری بات تھی

آج کے دور میں قرض لینا ضروری سمجھا جاتا ہے لیکن اس ضرورت کے لئے یہ ضروری ہے اور لا زمی سمجھا جا ئے کہ قرض لے کر وسائل کو ترقی دے کر اوراس قرض کا خوبصورتی سے استعما ل کرکے اسی قرض سے سود اور قسطیں اور آخر میں اس قر ض سے کئی گنا ہ زیادکما کر اس قرض کو پورے کا پورا ادا کر دیا جا ئے پھر تو سمجھ آتاہے کہ قرض لینے کی بہترین پلا ننگ کی گئی ہے پاکستا ن جتنے بھی ذرائع سے قرض لے رہا ہے ان سب پر سود کی ادا ئیگی کے لئے مزید قرض قر ضوں کی قسط ادا کرنے کے لئے مزید قر ض اور پھر بھی طویل عرصہ گررنے کے بعد آشکار ہوتا ہے کہ یہ قرض تو وبال جان بن گیا ہے

لہذا اس سے جان چھڑانے کے لئے مزید قرض لیا جائے اور پھر یہ کہ اس دوران بہت سی حکومتیں آئی اور چلی جاتی ہیں قرض لیتے اور اپنا وقت پورا کرکے چلے جاتے ہیں اور جب بھی قرض کا کھا تہ کھو لا جا تا ہے تو قرض کی ادائیگی کے ذمے دار کے طور پر پاکستانی عوام کا نام لکھا ہو تا ہے اس کے لئے بجلی گیس پیٹرول وغیرہ مہنگے کر دئیے جا تے ہیں اور اس ملک میں منگائی کا گراف بڑھتا چلا جا تا ہے

ملک پاکستا ن پر واجب الادا قرضوں کی تا ریخ بتاتی ہے کہ 1947کو شروع ہو نے والے اس سفر سے لے کر 2008تک پاکستان مجموعی طور پر 6127ار ب روپے کا مقروض تھا 2013تک پانچ سالہ دور میں پیپلزپارٹی حکومت نے اس میں 133فیصد یعنی 8165ارب روپے کا اضافہ کیااو ر یہ قرض 14292ارب روپے پر پہنچ گیا پاکستا ن مسلم لیگ ن کی حکومت نے اپنے پانچ سالہ دور میں اس حجم کو 4.60َََََ فیصد یعنی 10661ارب روپے بڑھاتے ہوئے 24953ارب روپے پر پہنچا دیا جو ملکی جی ڈی پی کا 725فی صد تھا

پاکستان تحریک انصاف کی حکومت نے قر ضوں میں کمی لانے کاوعدہ کیا تھا لیکن پاکستان تحریک انصاف نے اپنے دور حکومت میں ساٹھ فی صد یعنی 14907ارب روپے کا اضافہ کیا اور جون 2021میں پاکستا ن کا اندو نی اور بیرونی قرض 39859ار ب روپے پر پہنچ گیا تھا جو مجموعی قومی پیداوار کا 83.5فی صد بنتا ہے پی ڈی ایم کے دور حکومت میں 30جو ن 2023ملک پر واجب الا وا قرضوں کے حجم میں 13638ارب روپے کا اضافہ ہو ا اس دوران ڈالر کی قدر 204.4روپے سے بڑھ کر 236.4روپے پر پہنچ گئی جس کے باعث غیر ملکی قرضے 27.3فیصد سے بڑھ کر 22.4فی صد پر پہنچ گئے اور ان پر سود کی شرح3182ارب ڈالر سے بڑھ کر 5671ارب ڈالر کی سطح پر چلی گئی

آج ملک پر واجب الا دا قرضے پنسٹھ ہزار ارب روپے سے متجا وز کر چکے ہیں اس وقت پاکستا ن جن ملکوں اور عالمی اداروں کا مقروض ہے ان میں آئی ایم ایف ورلڈ ینک ایشیائی ترقیا تی بنک پیرس کلب اور دوست مما لک میں چین سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات سر فہرست ہیں عالمی بنک کی ایک رپورٹ کے مطابق پاکستان اُن دس ملکوں میں شامل ہے جہنوں نے عالمی سطح پر سب سے زیا دہ قر ض لے رکھا ہے

آئی ایم ایف کے سب سے بڑے مقروض ملکوں میں ارجنٹا ئن مصر یو کرین اور ایکو اڈور کے بعد پاکستان پانچویں نمبر پر آتا ہے ایشیا ئی ملکوں میں آئی ایم ایف سے حاصل کردہ قرضوں میں پاکستا ن پہلے نمبر پر ہے ہوتا یہ رہا ہے کہ قرضے لینے والا کوئی اور ہوتا ہے ااور قر ضے ادا کرنے والا کوئی اور بالاآخر یہ سب ملک کے ٹیکس دہندگان کو بھر نا پڑتا ہے جہا ں پاکستان کے محب وطن اور اس کا درد رکھنے والے شہری یہ پوچھ اُٹھانے کی کوشش کرتے ہیں اخلاقی تقاضاضرور بنتاہے کہ تمام اسٹیک ہولڈر اپنی اپنی زمہ داریوں کو سمجھیں جس روزہر شہری بلحاظ حیثیت اس میں شریک ہو گا

غیر ملکی قرضے اتا رے اور ترقی وخوشحالی کا نہ رکنے والا سفر ثروع ہونے میں دیر انہیں لگے گی ضرورت اس با ت کی ہے کہ حکومت اپنے وسا ئل پر بھروسہ کرے قر ض گہری جب انتہا ئی ضروری ہو تو قرض حاصل کرے اور اپنے وسائل کے تحت چھوٹے چھو ٹے بجلی گھر بنائے کا ٹیج انڈسٹری کا جال پھیلا ئے اور کم سے کم قرض کے ہر اس پر عملدر آمد کرکے پاکستان کو قرضوں کے جال سے نکالا جا سکتا ہے

خبر پر اظہار رائے کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں