columns 202

7ستمبر1974سے 22اگست2024تک

حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی حیات مبارکہ میں ہی کچھ لوگوں نے اپنی نبوت کا اعلان کر دیا تھا جن میں مسیلمہ کذاب اسود عنسی کے ساتھ ساتھ ایک عورت سچاع بنت حارث نے بھی نبوت کا اعلان کر دیا اور بعد ازاں سجاع بنت حارث نے مسلمہ کذاب کے ساتھ شادی کر لی.

اسود عنسی کی موت حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی حیات مبارکہ میں ہی ہو گئی تھی لیکن اس کی خبر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے وصال کے بعد پہنچی لیکن مسلمہ کذاب کے خلاف مسلمانوں کو یمامہ کے مقام پر ایک مشکل ترین جنگ کا سامنا کرنا پڑا مسلمانوں کا لشکر تیرہ ھزار پر مشتمل تھا اور کی قیادت خالد بن ولید نے کی تھی 1200 مسلمان شہید ھوئے جبکہ ان کے مد مقابل لشکر کی قیادت مسیلمہ کذاب نے کی.

اس کا لشکر چالیس ھزار پر مشتمل تھا یہ جنگ مسیلمہ کذاب کے قتل پر ختم ھوئی اس کے اکیس ھزار لشکری قتل ھوئے اس کے ساتھ ہی یہ فتنہ ختم ھوا لیکن اس کے بعد بھی وقفے وقفے سے کچھ لوگ نبوت کا دعویٰ کرتے رہے لیکن ان کی یہ فتنہ گری ان کے مرنے کے ساتھ ہی ختم ھوتی رہی لیکن ھمیں جس فتنہ کا سامنا ہے وہ بھارتی پنجاب کے علاقہ قادیان کے غلام احمد قادیانی کا برپا کیا ھوا ہےجب سے اس نے دعویٰ نبوت کیا ہے برصغیر پاک و ہند کے غیور مسلم ان کے عزائم کے خلاف سیسہ پلائی دیوار بنے ھوئے ہیں اس کی زندگی میں بھی علماء و مشائخ نے اس کے ساتھ مناظرے کیے ہیں

اور اس کے مرنے کے بعد اس کے پیروکاروں کے ساتھ بھی اصل تحریک قیام پاکستان کے بعد شروع ھوئی اھلیان پاکستان ان کو آئینی طور پر کافر قرار دلوانا چاہتے تھے تاکہ سرے سے سانپ کا سر ھی کچل دیا جائے اس کوشش میں ھزاروں نوجوانوں نے اپنے آقا و مولا حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی عزت و ناموس پر جانیں نچھاور کیں یہ فیصلہ کن تحریک کا آغاز کچھ یوں ھوا کہ 22مئ کو نشتر کالج کے طلباء ملتان سے شمالی علاقہ جات کے لیے بذریعہ ریل نکلے چناب نگر میں ٹرین رکی تو قادیانی اپنا لٹریچر تقسیم کرنے آگے طلباء کو یہ برداشت نہ ھوا ان کے ساتھ بحث مباحثہ ھو گیا 29.

مئی کو وہ طلباء واپس آئے تو قادیانی غنڈے اسی انتظار میں تھے ان پر شدید تشدد کیا قادیانیوں کی اس دیدہ دلیری پر 30 مئی کو پورا ملک میں ہڑتال کر دی گئی اس طرح یہ تحریک گلیوں چوراہوں سڑکوں بازاروں سے ھوتی ھوئی قومی اسمبلی تک جا پہنچیمولانا شاہ احمد نورانی صدیقی نے قومی اسمبلی میں 30 جون 1974 کو احمدیوں اور لاہوری گروہ کے خلاف ایک قرارداد پیش کی کہ یہ لوگ مرزا غلام احمد قادیانی کو نبی مانتے ہیں جبکہ حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم آخری نبی اور رسول تھے

اور ہیں لہٰذا اس باطل عقیدے کی بنا پر احمدیوں کو غیر مسلم اقلیت قرار دیا جائے جس پر غور کے لیے پوری قومی اسمبلی کو خصوصی کمیٹی میں تبدیل کر دیا گیا 24 جولائی 1974 کو وزیر اعظم نے اعلان کیا کہ جو قومی اسمبلی کا فیصلہ ہو گا وہ ہمیں منظور ہو گا 5 اگست سے 23 اگست 1974 تک وقفوں وقفوں سے مکمل گیارہ دن مرزا ناصر (مرزا غلام احمد قادیانی کا پوتا ) پر قومی اسمبلی میں جرح ہوئی 27، 28 اگست 1974 کو لاہوری گروپ پر قومی اسمبلی میں جرح ہوئی 5 ، 6 ستمبر 1974 کو اٹارنی جنرل نے قومی اسمبلی میں عمومی بحث کی اور مرزائیوں پر جرح کا خلاصہ پیش کیا .

اس ساری کارروائی میں قومی اسمبلی نے اڑھائی ماہ کے عرصے میں 28 اجلاس بلائے اور 96 گھنٹوں پر مشتمل نشستیں ہوئیں تمام مسالک کی مذہبی و سیاسی قیادت نے بھرپور کردار ادا کیا 7 ستمبر 1974 کو قومی اسمبلی میں دستور کی دفعہ 106 میں قادیانی و لاہوری گروپ کو اقلیتوں کی فہرست میں شامل کیا گیا اور دفعہ 260 میں ایک نئی شق کا اضافہ کیا جس میں یہ طے کیا کہ ہر فرد جو حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد کسی مدعی نبوت کو پیغمبر یا مذہبی مصلح مانتا ہو وہ آئین یا قانون کے مقاصد کے ضمن میں مسلمان نہیں مرزائیوں کو غیر مسلم اقلیت قرار دینے کے لیے 130 ووٹ آئے اور قادیانیوں کی حمایت میں ایک ووٹ بھی نہ آیا.

چنانچہ 7 ستمبر 1974ء کو نیشنل اسمبلی آف پاکستان نے بل کو شام 5 بج کر 52 منٹ پر منظور کیا مرزائیوں کے دونوں گروہ (قادیانی لاہوری) کو آئینی طور پر غیرمسلم اقلیت قرار دیا گیا 7 ستمبر 1974 ہی کی شام 30: 7 بجے سینٹ کا اجلاس ہوا مرکزی وزیر قانون جناب عبدالحفیظ پیرزادہ نے قومی اسمبلی کا منظور شدہ بل سینٹ میں پیش کیا ایوان میں دوبار رائے شماری ہوئی قومی اسمبلی کی طرح سینٹ میں بھی سارے ووٹ مرزائیوں کے خلاف آئے اور ایک ووٹ بھی ان کے حق میں نہ آیا .

بالآخر 7 ستمبر 1974 کو رات 8:00 بجے ریڈیو پاکستان پر قادیانیوں کے غیر مسلم ھونے کا اعلان کر دیا گیا 26اپریل 1984ءکو اس وقت کی وفاقی حکومت نے امتناعِ قادیانیت کا آرڈیننس جاری کیا 1984 ہی میں قادیانیوں نے وفاقی شرعی عدالت میں شعائر اسلام کو استعمال کرنے کے متعلق درخواست دی جس میں شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہر القادری نے دلائل دیے جس بنا پر ان کی اپیل خارج کر دی گئی 1988 میں قادیانیوں نے پہلی مرتبہ عالمی سطح پر آواز بلند کی انہوں نے اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کے کمیشن میں پاکستان کے خلاف مقدمہ دائر کیا.

جس کے دفاع کیلئے پاکستان کی جانب سے جسٹس پیر محمد کرم شاہ الازہری جنیوا تشریف لے گئے جہاں انہوں نے دلائل کی طاقت سے پاکستانی مؤقف بیان کیا اور 30اگست 1988 کو اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کمیشن نے قادیانیوں کی درخواست کو مسترد کر دیا 2019 میں ایک مرتبہ پھر قادیانیوں کی طرف سے لٹریچر کی تقسیم سے ایک تنازع شروع ہوا 2022 میں مقدمہ درج ہوا.

اس مقدمے میں نامزد ملزم مبارک ثانی کی ضمانت کیلئے سیشن جج اور لاہور ہائی کورٹ نے اپیل مسترد کی تاہم 24جولائی 2024 کو سپریم کورٹ نے اس پر متنازع فیصلہ دیا جو پورے ملک میں بے چینی کا باعث بنا بلآخر امت مسلمہ نے متحد ھو کر اس سازش کا مقابلہ کیا اور سپریم کورٹ کو مجبور کر دیا کہ وہ جو خاموشی سے قادیانیت کی تبلیغ اور شعائر اسلام کے استعمال کی جو چھپے لفظوں اجازت دینے کی کوشش کر رہی تھی وہ اس خیال کو اپنے ذہین سے نکال دے.

ھمارے ھزار اختلاف سہی لیکن آقا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی عزت ناموس پر ھم متحد ہیں اس پر آنچ نہیں آنے دیں گے اس طرح 22 اگست کو سپریم کورٹ نے اپنا متنازع فیصلہ واپس لے کر مسلمانان پاکستان کو آقا کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی بارگاہ میں سر خرو کر دیا

خبر پر اظہار رائے کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں