خونخوار درندے صرف جنگلوں میں ہی نہیں بھرے پرے شہروں کثیر آبادی کے دیہاتوں‘علی الشان بنگلوں اور گھروں میں بھی بستے ہیں درندگی صرف جنگلی جانوروں کا ہی وصف نہیں یہ صفت خون ریزی حضرت آدم کے لہو میں بھی بھرپور شدت سے موجزن ہے۔ہم مسلمان دشمن ملک کے ہاتھوں غزہ کے معصوم بچوں کی شہادتوں پر صیہونیوں کو قابل گردن زنی قرار دیتے ہیں لیکن ہم اپنے ہی وطن میں بے لگام پھرتے درندوں کے ہاتھوں شہید کیے اپنے معصوم بچوں کی خون آلودہ لاشیں اٹھا اٹھا کر تھک چکے ہیں لیکن معاشرے کے ناسوروں کی پیاس نہیں بجھی یہاں حکمرانوں اور قانون کے رکھوالوں کو لقوہ مار گیا ہے وہ اپاہج ہوچکے ہیں وہ اس قدر مفلوج ہوچکے ہیں کہ ان میں معاشر ے کے ان گھناؤنے کرداروں بارے کچھ کر گذرنے کی سکت باقی نہیں رہی۔
بحثیت قوم ہم سب بھی سماج میں پنپنے والے جرائم میں حصہ دار ہیں کہ ہم مظلوم کے حق میں یا ظالم کے خلاف کوئی ٹھوس قدم اٹھانا تو درکنار زبان تک کھولنے سے گریزاں ہیں۔ہم انسانیت سے بے بہرہ اور احساس سے عاری ہوچکے ہیں ہماری خاموشی اور انفرادی سوچ نے سماج میں جرائم۔کو بڑھوتی دی ہے بحثیت قوم ہماری بے حسی کی ایک مثال راولپنڈی ڈسٹرکٹ کے شہر روات تھانے کے انڈر آنے والے گاؤں موڑہ گاڑ میں دیکھنے کو ملی جہاں منعقدہ شادی کی ایک تقریب میں اپنے والدین کے ہمراہ شرکت کے لیے بطور مہمان آنے والے چار سالہ معصوم بچے اریشمان کے اغواء اور بعد ازاں اس کی لاش ملنے تک گاؤں کے افراد واقعہ لاتعلق رہے بچے کے غائب ہونے پر بچے کے ماموں عمر روف نے بچے کے غائب ہونے کا مقدمہ درج کروایا لیکن روات پولیس بچے کی گمشدگی پر فوکس کرنے کے بجائے اپنے روایتی جابرانہ انداز کے تحت کبھی بچے کا برتھ سرٹیفیکٹ مانگتے اور کبھی بچے کے والدین کا نکاح نامہ طلب کیا جاتا رہا۔
اس دوران بچے کا سراغ نہ ملنے پر غمزدہ والد جان کی بازی ہار گیا روات پولیس کی نااہلی اور غفلت کی انتہا رہی بچے کے غائب ہونے کے 56روز گذر جانے کے بعد گاؤں کے قریب واقع جنگل میں کسی تالاب یا جوہڑ سے بچے کی لاش برآمد ہوئی فرانزک کے بعد بچے لاش بارہ سے پندرہ روز تک پانی میں رہنے کی رپورٹ جاری ہوئی لیکن روات پولیس اپنی غفلت اور نااہلی پر پردہ ڈالنے کے لیے بچے کے پانی ڈوب کر مرنے کی کہانی سنا رہی ہے جبکہ فرانزک رپورٹ کے مطابق لاش بارہ سے پندرہ روز پانی رہی یعنی بچے کے غائب ہونے کے 41 روز بعد لاش پانی میں پھینکی گئی۔بچہ اکتالیس روز کس کے پاس تھا یہ سوالیہ نشان ہے۔روات تھانے کے مہان ایس ایچ او بچہ تو بازیاب نہ کروا سکے البتہ میڈیا سے رابطے کرنے پر مدعی مقدمہ عمر روف کو گرفتار کرکے لاک اپ کردیا کیونکہ ہمارے یہاں پولیس کا اپنے اختیارات کا نا جائز استعمال ایک عام سے بات ہے۔یہاں ان کی گرفت کرنے والا کوئی نہیں یہ مادر پدر آزاد ہیں جو چاہیں کرگذریں اگر ایسی پھرتی بچے کی تلاش میں دیکھائی ہوتی تو شاید یہ سانحہ پیش نہ آتا بچے کی لاش ملنے کے لگ بھگ سات ماہ بعد بھی نااہل پولیس کیس حل نہ کرسکی۔اب سرکاری سطح پر پولیس کی نااہلی تسلیم کرتے ہوئے کیس کو سی سی ڈی کے سپرد کردیا گیا ہے لیکن کیا اعلی حکام کا صرف کیس سی سی ڈی کو ریفر کردینا کافی ہے۔نہیں یہ فیصلہ انصاف کے تقاضے پورے نہیں کرتا۔کیس ٹرانسفر کیے جانے کے بعد ایس ایچ او اور تفتیشی کو معطل کرکے ان کے خلاف فرائض سے غفلت برتنے اور مقدمہ کے مدعی کو گرفتار کرنے اور لاک اپ کرکے حراساں کرنے کے حوالے سے انکوئری کروائی جائے اختیارات سے تجاوز کرنے پر تادیبی کاروائی کرکے غمزدہ خاندان کو انصاف فراہمی کی بنیاد رکھی جائے۔کیونکہ قانون پر عمل ہی معاشروں کو مضبوطی فراہم کرتا ہے۔جو ہمارے یہاں نہیں ہورہا۔