170

موجودہ ملکی حالات کا ذمہ دار کون؟

ہماری بدقسمتی ہے کہ ہم نے 74 سالوں میں اپنے لئے کچھ کیا نہ پاکستان کے لئے۔ چند خاندانوں نے اس ملک میں حکمرانی کی اور اس کو اپنی جاگیر سمجھا اور لوٹ مار کی پاکستان کی دولت لوٹ کر باہر لے گئے حالانکہ یہ ملک کلمہ کے نام پر قائم ہوا تھا اگر آج اس میں اللہ کا قانون نافذ ہوتا تو ہمارے حالات ایسے نہ ہوتے اس میں زیادہ قصور ہم لوگوں کا ہے جنہوں نے آج تک ایسے لوگوں کا چناؤ نہیں کیا جو اس ملک میں اللہ اور اس کے رسول کا قانون نافذ کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں قرآن کا فیصلہ ہے جیسے لوگ ہونگے ویسے ہی حکمران مسلط کئے جائیں گے آج جتنا بڑا چور ڈاکو ہو گا لینڈ مافیا ہو گا منشیات فروش ہو گا ہم اسکو لیڈر مانیں گے ایک گھر میں چار بھائی ہیں سب نے الگ الگ پارٹی سے رابطے رکھے ہیں ذاتی مفادات اور برادری ازم کی سیاست نے علاقے اور عوام کے مفادات کو نہیں دیکھا جس طرح پاکستان ایٹمی قوت ہونے کے باوجود آج معاشی بد حالی کا شکار ہے جسکی مثال نہیں ملتی آئی ایم ایف کی ایک ارب کی قسط جو لیکر جو اسی کو سود کی مد میں واپس کرنی ہے اس لئے کئی ماہ عمران خان کی حکومت منتیں کرتی رہی اور ایک ماہ سے زائد عرصہ ہوا موجودہ حکومت منتیں کرتی رہی مگر انہوں نے اپنی کڑی شرائط منوانے کے بغیر نہیں دیے آج ملک دیوالیہ ہونے کو ہے پی پی پی مسلم لیگ ن کو عوام نے آزمایا اور 2018 میں انہوں نے عمران خان کی تبدیلی کو ووٹ دیکر کامیاب کیا جو پاکستان میں بھی عوام نے دیکھ لیا اور حلقہ این اے ستاون کے عوام نے بھی صداقت عباسی کی شکل میں دیکھ لی خیر لکھنے کو تو بہت کچھ ہے کیونکہ چین ہم سے بعد میں آزاد ہوا اور اس کے پاس صرف 25 سے 30 فیصد زرخیز زمین ہے جس سے پاکستان سمیت وہ پوری دنیا میں خوراک سبزی فروٹ مہیا کرتا ہے ہماری تقریب 65 سے 70 فیصد زرخیز زمین سونے ہیرے جواہرات سب کچھ ہونے کے باوجود کسی چیز میں خود کفیل نہ ہو سکے سٹیل مل پی آئی اے ریلوے جس ادارے کو دیکھیں اسکو ہمارے حکمرانوں بیوروکریسی نے دیمک کی طرح چاٹ لیا ہے ہر ادارہ اربوں کا مقروض ہے یہی وجہ ہے کہ ہم ہر ملک میں جا کر بھیگ مانگ رہے ہیں اور اپنی عیاشیوں میں مصروف ہیں پہلی بات تو یہ ہے عمران خان سلیکٹ ہو کر آئے یا ووٹوں سے اگر چار سال اس کو برداشت کیا ہے تو ایک سال اور رہنے دیں میں بحیثیت صحافی آپ کو بتاتا ہوں کہ پی ٹی آئی کی چار سالہ ناقص کارکردگی کی وجہ سے ان کا گراف اتنا گر گیا تھا چند مفاد پرست لوگوں کے علاوہ انکو اپنے بھی چھوڑ گئے تھے اقتدار کی خاطر خاص کر مسلم لیگ ن نے انکو ہیرو بنا دیا چلو انہوں نے سازش کی کچھ کیا عدم اعتماد کے ذریعے انکو ہٹایا تو عمران خان کو ایک سال صبر کو لینا چاہیے تھا اور اپوزیشن میں رہتے ہوئے ان کو بے نقاب کرتے ظاہر ہے پاکستان کے حالات ہی ایسے ہیں کہ یہاں پر آنے والا سارا ملبہ سابقہ حکمرانوں پر ڈالتا ہے اور مہنگائی قرض کے بغیر چارہ نہیں مگر عمران خان نے ڈیڑھ ماہ میں اربوں روپے جلسوں پر خرچ کر کے اپنوں کو بھی عذاب میں ڈالا اور مخالفین کو بھی امتحان میں ڈالاچاہے ان کا تعلق پی ٹی آئی سے ہو یا پھر کسی اور جماعت سے باقی چھوڑیں ان دو تین دنوں میں کتنی قیمتی جانیں ضائع ہوئیں کتنے ٹرانسپورٹرز کو نقصان ہوا تاجروں کے اربوں کے کاروبار ضائع ہوئے مزدور جو دیہاڑی لگا کر بچوں کا پیٹ پالتا تھا اس کو دھرنوں سے کیا ملا خیر یہ عوام کو بھی سوچنا چاہیے آخر عمران خان اور حکومت کے فیصلے ہوئے عمران خان نے آ کر چھ دن کی ڈیڈ لائن دے کر دھرنا ختم کر دیا خیر اچھا ہوا عوام مزید نقصان سے بچ گئے پی ٹی آئی پنجاب سے لوگوں کو نکالنے میں مکمل طور پر ناکام ہو گئی رکاوٹیں تھیں راستے بند تھے مگر یہ تو ہر حکومت کرتی ہے مقامی شہروں میں بھی لوگ نہ نکل سکے حلقہ پی پی سیون میں سابق چیئرمین آر ڈی اے راجہ طارق محمود مرتضیٰ نے قاسم سوری کو دعوت دی کہوٹہ شہر میں جگہ جگہ بینرز اویزاں اور یہاں پر کارکن ورکرز اور خاص طور پر نوجوان اگھٹے ہوئے ادھر مسلم لیگ ن کے راہنما بلال یامین ستی نے چند لوگ اگھٹے کر کے نعرے بازی کی پی ٹی آئی کی طرف سے بھی نعرے بازی کی گئی مسلم لیگ ن کو ایسا کرنا ہی نہیں چاہیے تھا اگر مظاہرہ کرنا ہی تھا تو کم از کم دو چار ہزار لوگ مسلم لیگی عہدیدران بھی ہونے چاہیے تھے پی ٹی آئی شاہد اتنے لوگ اگھٹے نہ کر سکتی مگر مسلم لیگی احتجاج نے ان کے ورکروں کورکنوں کو اگھٹا کرنے میں مدد دی خیر راجہ طارق محمود مرتضیٰ جو حلقہ پی پی سیون کے ٹکٹ کے امیدوار بھی ہیں راجہ صغیر احمد کے جانے کے بعد قاسم سوری کو بلا کر نہ صرف کہوٹہ میں ورکروں میں نئی جان ڈالی بلکہ اپنے گاؤں میں بھی ایک کامیاب جلسہ کرا کر بھی ثابت کر دیا کہ ستاروں سے آگے جہاں اور بھی ہیں خیر راجہ طارق محمود مرتضیٰ نے ایک اچھی انٹری دی گو کہ صداقت عباسی بھی ساتھ تھے اور وہ مرجھائے ہوئے نظر آتے تھے کیونکہ ان کو اپنے کاموں کا پتہ ہے پی ٹی آئی کے تقریباً 7 سے 8 تک پی پی سیون کے امیدوار ہیں مگر حقیقی مارچ میں صرف میدان میں راجہ طارق محمود مرتضیٰ اور راجہ وحید ہی نظر آئے پولیس نے رکاوٹیں بھی کھڑی کیں ہلکے پھلکے چھاپے بھی مارے 4 سے 5 گرفتاریاں بھی ہوئیں مگر اس کے باوجود تحصیل کہوٹہ سے کچھ نہ کچھ ورکر ضرور گئے مگر جس طرح اسلام آباد کے قریب ترین حلقے سے ورکروں کو جانا چاہیے تھا نہیں گئے جس کی بڑی وجہ اختلافات بھی ہیں۔

خبر پر اظہار رائے کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں