18

24 نومبر کو ہونے والا احتجاج ایک بار پھر عوامی توجہ کا مرکز بن گیا

پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کا 24 نومبر کو ہونے والا احتجاج ایک بار پھر عوامی توجہ کا مرکز بن گیا ہے۔ تحریک انصاف نے اس سے پہلے بھی کئی احتجاج کیے اور ہمیشہ مطالبات تسلیم کرانے میں ناکام رہی۔ تحریک انصاف کے احتجاجوں میں اکثر و بیشتر سیاسی قیادت غائب رہی اور جو رہنما آئے وہ بھی اکثر کارکنوں کو ڈی چوک پر تنہا چوڑ کر رفو چکر ہو گئے،

جس کی وجہ سے یہ عوامی پذیرائی حاصل کرنے اور مطالبات تسلیم کرانے میں ناکافی رہے۔
گزشتہ احتجاجات پر نظر ڈالیں تو پی ٹی آئی نے حکومت کی پالیسیوں کے خلاف شدت سے آواز اٹھائی۔ ان احتجاجات میں کارکنوں اور پولیس اہلکاروں کے درمیان تصادم ہوا، جس کے نتیجے میں کئی افراد زخمی ہوئے اور کچھ ہلاکتیں بھی ہوئیں۔ ان احتجاجات کے دوران عوامی و سرکاری املاک کو نقصان پہنچا، جس سے نہ صرف مالی نقصان ہوا بلکہ عوامی سہولیات بھی متاثر ہوئیں۔

سرکاری دفاتر، گاڑیاں، اور دیگر املاک کو نقصان پہنچنے سے عوامی وسائل کا ضیاع ہوا۔ احتجاجات کے دوران کاروباری سرگرمیاں معطل ہو گئیں، جس سے معیشت پر منفی اثرات مرتب ہوئے۔ ٹریفک کی بندش اور کاروباری مراکز کی بندش سے شہریوں کو مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔
پی ٹی آئی کے احتجاجات کے دوران کارکنوں اور پولیس اہلکاروں کی سلامتی ہمیشہ ایک بڑا مسئلہ رہا ہے۔ ماضی کے تجربات کو مدنظر رکھتے ہوئے، 24 نومبر کے احتجاج میں بھی خدانخواستہ کارکنوں اور پولیس اہلکاروں کے زخمی ہونے یا ہلاکتوں کا خدشہ ہے۔

تصادم کی صورت میں انسانی جانوں کا نقصان ہو سکتا ہے، جو کہ ایک بڑا انسانی المیہ ہوگا۔ احتجاج کے دوران عوامی و سرکاری املاک کو نقصان پہنچنے کا خدشہ ہے۔ اس سے نہ صرف مالی نقصان ہوگا بلکہ عوامی سہولیات بھی متاثر ہوں گی۔ سرکاری دفاتر، گاڑیاں، اور دیگر املاک کو نقصان پہنچنے سے عوامی وسائل کا ضیاع ہوگا۔
احتجاجات کے دوران معاشی نقصانات بھی ایک بڑا مسئلہ ہیں۔ احتجاج کے دوران کاروباری سرگرمیاں معطل ہو سکتی ہیں جس سے معیشت پر منفی اثرات مرتب ہوں گے۔

ٹریفک کی بندش اور کاروباری مراکز کی بندش سے شہریوں کو مشکلات کا سامنا کرنا پڑے گا۔ اس کے علاوہ، احتجاج کے دوران ہونے والے نقصانات کی بحالی کے لیے حکومت کو اضافی وسائل خرچ کرنے پڑیں گے۔ احتجاجات کے دوران عوامی مشکلات بھی بڑھ جاتی ہیں۔ ٹریفک کی بندش، کاروباری مراکز کی بندش اور دیگر عوامی سہولیات کی معطلی سے شہریوں کو مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ روزمرہ کی زندگی متاثر ہوتی ہے اور عوام کو شدید مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔
پی ٹی آئی کے احتجاجات نے حکومتوں پر سیاسی دباؤ ڈالا اور کئی مواقع پر حکومت کو مذاکرات پر مجبور کیا۔ تاہم، بدقسمتی سے، ان احتجاجات میں تشدد اور عوامی و سرکاری املاک کو نقصان پہنچا۔ پی ٹی آئی کے احتجاجات کے دوران کارکنوں اور پولیس اہلکاروں کی سلامتی ہمیشہ ایک بڑا مسئلہ رہا ہے۔

ماضی کے تجربات کو مدنظر رکھتے ہوئے، 24 نومبر کے احتجاج میں بھی کارکنوں اور پولیس اہلکاروں کی سلامتی خطرے میں نظر آ رہی ہے احتجاجات کے دوران عوامی مشکلات بھی بڑھ جاتی ہیں۔ ٹریفک کی بندش، کاروباری مراکز کی بندش اور دیگر عوامی سہولیات کی معطلی سے شہریوں کو مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ روزمرہ کی زندگی متاثر ہوتی ہے اور عوام کو شدید مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔
پی ٹی آئی کے
احتجاجات نے حکومتوں پر سیاسی دباؤ ڈالا اور کئی مواقع پر حکومت کو مذاکرات پر مجبور کیا۔ تاہم، بدقسمتی سے، ان احتجاجات میں تشدد اور عوامی و سرکاری املاک کو نقصان پہنچا۔
تحریک انصاف کے کارکنوں نے کئی بار وفاقی دارلحکومت کو نقصان پہنچایا ہے،

پی ٹی وی، سپریم کورٹ اور پارلیمنٹ کی بلڈنگ ان سے محفوظ نہیں رہی حتیٰ کہ اسلام آباد میں درخت تک ان کی تخریب کاری سے بچ نہیں سکے انہیں بھی آگ لگانے کے واقعات ریکارڈ پر ہیں۔ تحریک انصاف کے رہنماؤں کی طرف سے دھواں دار تقاریر ان تمام تر نقصانات کی ذمہ دار ہیں کیونکہ وہی کارکنوں کو اشتعال دلاتے ہیں اور جوشیلے کارکن بلا سوچے سمجھے ان کی باتوں میں آ جاتے ہیں اور یہاں تک پہنچ جاتے ہیں کہ اسلام آباد تو کیا چیز ہے مسجد نبوی شریف کی بے حرمتی بھی کر ڈالتے ہیں۔ بہر حال گزشتہ احتجاجات کو مدنظر رکھتے ہوئے یہ کہا جا سکتا ہے کہ تحریک انصاف کے احتجاجوں کی تاریخ پر تشدد واقعات سے بھر پور ہے

جس کی وجہ سے اس مرتبہ بھی کسی بھلائی کی توقع نہیں کی جا سکتی۔ اس لیے عوام کو خود میں شعور پیدا کرتے ہوئے کسی رہنما کی باتوں میں نہیں آنا چاہیے۔ پہلے تو مطالبات ایسے ہونے چاہئیں جو قابل عمل ہوں اور جو مطالبات آپ کر رہے ہیں آپ کے دور میں وہ کام نہ ہوئے ہوں یا خود آپ نے ان پر عمل کیا ہو تو ضرور کریں اگر آپ کے ہاتھ بھی ان سے رنگے ہوئے ہیں تو پھر آپ مطالبات نہیں کر سکتے

۔ بہر حال احتجاج کرنا بھی ہو تو اس کے لیے ایسا طریقہ اختیار کرنا چاہیے کہ کارکن اشتعال میں نہ ہوں اور پر امن طریقے سے قانون کی پیروی کرتے ہوئے اپنا احتجاج ریکارڈ کرائیں اور گھر جائیں۔ عوام اور کارکنوں کو نقصان سے بچانا ترجیح ہونی چاہیے۔

خبر پر اظہار رائے کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں