23مارچ کو لانگ مارچ کا خطرناک فیصلہ

گزشتہ برس 26جنوری کو بھارت کے یوم جمہوریہ پر کسانوں نے دہلی میں ایک بڑی ٹریکٹر ریلی نکالی جس میں ہزاروں کی تعداد میں ٹریکٹر لے کر لاکھوں کسان دہلی میں داخل ہو گئے اور یوم جمہوریہ کی پریڈ کے لیے خطرہ بنے۔ بھارت میں یوم جمہوریہ پر پریڈ کا نعقاد کیا جاتا ہے جس میں فوجی طاقت کا مظاہرہ کرنے کے ساتھ ساتھ سائنس اور دیگر شعبوں میں ہونے والے ترقی کی نمائش کی جاتی ہے۔ اس موقع پر ملک بھر کی ریاستوں کی ثقافت کا مظاہرہ بھی ہوتا ہے۔ اس پریڈ میں غیر ملکی فوجی دستے بھی شامل ہوتے ہیں اورچند مہمان خصوصی بھی شریک ہوتے ہیں۔ مگر گزشتہ برس کسانوں کے مارچ کی وجہ سے بھارت کی کافی سبکی ہوئی اور بھارت میں اس دن کو شاندار طریقے سے نہ منایا جا سکااور سارا دن دہلی میدان جنگ بنا رہا، جس کی وجہ سے یوم جمہوریہ کی خوشیاں ماند پڑ گئیں۔اس سال پاکستان میں اپوزیشن جماعتوں نے بھی 23مارچ کو لانگ مارچ کا اعلان کر رکھا ہے اور پاکستان میں 23مارچ کو یوم پاکستان منایا جاتا ہے جس میں اسلام آباد میں خصوصی پریڈ کا اہتمام ہوتا ہے۔ اس موقع پر ملک کی فوجی طاقت کا شاندار طریقے سے مظاہرہ کیا جاتا ہے اور پاکستان کے قابل فخر اور بہترین ہتھیاروں کی نمائش بھی ہوتی ہے۔ احساس اسلحہ یوم پریڈ پر اسلام آباد پہنچایا جاتا ہے اور نمائش کے بعد واپس بھی لے جایا جاتا ہے۔ اس موقع پر پاک فضائیہ بھی اپنے فن کا مظاہرہ کرتی ہے۔ اسی طرح ملک کے مختلف علاقوں کی ثقافت کو اس پریڈ میں دکھایا جاتا ہے۔ مختلف ممالک کے فوجی دستے بھی اس پریڈ میں شریک ہوتے ہیں اور اپنے فن کا مظاہرہ کرنے کے ساتھ ساتھ پاکستان کے ساتھ دوستی کا ثبوت دیتے ہیں۔ غیر ملکی دستوں کے علاوہ بہت سے غیر ملکی مہمان بھی اس پریڈ میں شریک ہوتے ہیں۔ اس لیے یہ دن بہت حساس نوعیت کا ہوتا ہے جس پراسلام آباد میں سخت سیکیورٹی کے انتظامات کیے جاتے ہیں تاکہ کوئی بھی ناخوشگوار واقعہ سے بچا جا سکے۔ اپوزیشن جماعتوں نے اسی دن لانگ مارچ کا اعلان کر کے گزشتہ برس بھارت کے یوم جمہوریہ کی تاریخ دہرانے کی ٹھان لی ہے۔ اس دن احتجاج کرنے کا مطلب اسلام آباد کی سیکیورٹی کو شدید خطرے میں ڈالنا ہے۔ اگر اپوزیشن جماعتیں اسی دن اسلام آباد پہنچتی ہیں تو یقینا انہیں روکنے کی کوشش کی جائے گی لیکن سیاسی جماعتوں کے رہنما اور کارکن کب رکنے والے ہوتے ہیں نتیجتاً پولیس کو انہیں روکنے کے لیے طاقت کا استعمال کرنا پڑے گا جس سے اسلام آباد بھی میدان جنگ بن جائے گا اور یوم پاکستان کی پریڈ کے لیے خطرہ پیدا ہو جائے گا جس کی وجہ سے اس دن کی خوشیاں ماند پڑ جائیں گی۔ حالیہ دنوں پاکستان پھر ایک بار دہشتگردوں کے نشانے پر ہے، آئے روز دہشتگرد اپنی کاروائیوں میں مصروف ہیں خاص طور پر سیکیورٹی فورسز کو انہوں نے نشانے پر رکھا ہوا ہے اور گزشتہ چند روز میں کئی فوجی شہید ہو چکے ہیں۔ ان حالات میں 23مارچ کو پریڈ کرنا ہی ایک مشکل عمل ہو گا، چہ جائیکہ اپوزیشن کے لانگ مارچ کی وجہ سے پیداہونے والے سیکیورٹی خدشات سے بھی نمٹا جائے۔اپوزیشن جماعتیں اس وقت بوکھلائی ہوئی ہیں کیونکہ انہوں نے ایک طاقتور اپوزیشن ہونے کے باوجود کچھ نہیں کیا۔ طاقتور اس معنیٰ میں کہ اپوزیشن میں شامل جماعتوں کی تعداد قابل ذکر ہے اور اوپر سے تمام بڑی اور تجربہ کاری سیاسی جماعتیں اپوزیشن اتحاد کا حصہ ہیں جن میں گزشتہ ادوار کے کئی وزراء اعظم، صدور اور وفاقی و صوبائی وزراء بھی شامل ہیں۔ اتنی تجربہ کار اپوزیشن ہونے کے باوجود یہ سیاسی جماعتیں ایوانوں میں حکومت کا کچھ نہیں بگاڑ سکیں۔ بلکہ سینیٹ میں منی بجٹ جو صرف ایک ووٹ کی برتری کے ساتھ وہ بھی چیئر مین کا تھا،

حکومت نے پاس کروا لیا۔ وہاں ان کی عددی برتری بھی واضح تھی وہاں انہوں نے نہایت غیر سنجیدگی کا ثبوت دیا اور حکومت با آسانی یہ بل پاس کرانے میں کامیاب ہو گئی۔ پھر یہ ایک دوسرے پر الزامات دھرنے لگے جبکہ کوئی ایک نہیں تمام اپوزیشن جماعتیں اس کی ذمہ دار ہیں۔ یہ بل بھی ایسا تھا کہ تحریک انصاف کے علاوہ کوئی بھی اس بل کا حامی نہیں تھا یا زیادہ سے زیادہ یہ کہا جا سکتا ہے کہ تحریک انصاف کی اتحادی جماعتیں بھی اس بل کی حمایت کر رہی تھیں لیکن وہ تو چار و ناچار کر رہی تھیں کہ ان کے پاس اس کے علاوہ کوئی چارہ نہیں تھا۔ ان کے علاوہ تمام سیاستدان، ماہرین معیشت، قانون دان اور خود عوام بھی اس بل کے خلاف تھے اس لیے اپوزیشن جماعتیں اسے روک لیتیں تو انہیں کسی نے ملامت نہیں کرنا تھا مگر یہ جماعتیں صرف باتیں کرنے کی ہی رہ گئی ہیں۔ اگر چہ حکمران جماعت بھی حکمرانی کا اخلاقی جواز کھو چکی ہے لیکن وہ ایک مستقل موضوع ہے بہر حال23مارچ کو اگر اپوزیشن جماعتیں لانگ مارچ کریں گی تو حکومت کی ذمہ دای ہے کہ وہ اسے روکے۔ ظاہر ہے جب اسلام آباد میں انتہائی حساس نوعیت کی پریڈ ہو رہی ہو گی تو ایسے وقت میں کسی کو انتشار پھیلانے کی اجازت نہیں دی جا سکتی۔ ایسے موقع پر اسلام آباد میدان جنگ بن جائے گا جس کی وجہ سے پریڈ میں بہت خلل واقع ہو گا اور خدانخواستہ کوئی بڑا ناخوشگوار واقعہ بھی رونما ہو سکتا ہے۔ اس لیے اپوزیشن جماعتوں کو اول تو یہ چاہیے کہ اپنی پوزیشن کو دیکھتے ہوئے خاموشی سے بیٹھ کر پانچ سال پورے ہونے کا انتظار کرنا چاہیے اور اگر پھر بھی انہیں خود کو سیاست میں زندہ رکھنے کے لیے لانگ مارچ کرنا ہی ہے تو 23مارچ کے علاوہ کسی اور تاریخ کو کر لیں۔

اپنا تبصرہ بھیجیں