اللہ تعا لیٰ کا ارشا د ہے کہ اے ایمان والو یہودونصاریٰ کو دوست نہ بناؤ یہ ایک دوسرے کے دوست ہیں اور جو شحض تم میں سے اُن کو دوست بنا ئے گا وہ بھی انہی میں سے ہو گا۔بیشک اللہ ظالم لوگو ں کو ہدایت نہیں دیتا (المائدہ)۔
غور فرمائیے کہ اہل ایمان کو کفار کے ساتھ دوستی سے منع فرمایا گیاہے جبکہ یہودونصاریٰ کے بارے میں خصوصاََ فرمایا گیا ہے کہ اگر کوئی مسلمان اس حکم کی خلاف ورزی کر تا ہے تو وہ بھی انہی جیسا بے ہدایت اور ظالم ہو گا‘یہودونصاریٰ یقینا اس لئے کہ آئندہ انہی دو مذاہب کے پیروکار مسلمانوں کے خلاف سب سے زیادہ سازشیں کر نے والے تھے۔
تاریخ گواہ ہے کہ یہی دو گروہ ہیں جو اسلامی دنیا کے خلاف ہمیشہ بر سرپیکار رہے ہیں اور حق و باطل کی کشمکش میں ایسے منافق نما کر دار ادا کرنے میں کا میا ب رہے ہیں جو اپنے ذاتی مفادات کے پیش نظر کبھی خفیہ انداز میں اور کبھی اعلانیہ الفاظ میں اپنے ایمان بیچ دیتے ہیں اور منافق نماکردارو کا ہمیشہ سے یہی وطیرہ رہا ہے کہ فتح یاب نظر آ رہے ہوں تو انہیں اپنی وفاداریوں کا یقین دلاتے ہیں اور اسلام دشمنوں کا پلہ بھاری نظر آئے تو مسلمانوں کے خلاف ساز شوں میں شریک ہوتے ہیں۔
اللہ تعالیٰ کا اہل ایمان کے ساتھ ہمیشہ کے لئے یہ وعدہ رہا کہ جو کوئی اللہ اور اس کے رسولؐ کو اور اہل ایمان کو دوست رکھے گا تو وہ اللہ کی جماعت میں داخل ہوگا اور اللہ کی جماعت ہی آخر کار غالب رہے گی (المائدہ)۔افسو س تویہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کے اس وعدہ کے باوجود اسلامی دنیا میں ایسے بے شمار و اقعات پائے جاتے ہیں جہا ں اسلامی افواج کے انتہائی اہم عہدوں پر براجمان افراد نے مال و جان کی خا طر اپنے ایما ن بیچ دئیے اور یہودو نصاریٰ کے ساتھ سازشوں میں شریک اپنی قوم کے خلاف غداری کے مر تکب ہوئے ایسا ایک واقعہ اسلامی دنیا کے عظیم سپہ سالار سلطان صلاح لدین ایوبی کے متعلق بھی ہے۔
جنہیں 23مارچ 1169ء میں مصر میں حکومتی زمہ داریا ں ملیں اس وقت آپ عمر کے لحا ظ سے تو ابھی جو ان تھے لیکن حرب و ضر ب میں خو ب مہارت رکھتے تھے اور خاص کر یہ کہ فکری طور پر حکمرانی کا مطلب با دشا ہی کے بجائے اسلام کی پاسبانی اور قوم کی بڑائی اور فلاح وبہبود سمجھتے تھے۔ عہدہ سنبھالا تو دیکھا کہ اکثر مسلمان امراء اور فوج کے بڑے عہدیدارعیش وعشرت کے دلدادہ ہو چکے تھے شراب اور عورت نے اُن کی ذاتی زندگیاں تو کا فی رنگین بنادی تھیں لیکن ملت اسلامیہ کا مستقبل روزبروزتاریک ہوتا چلاجارہا تھا ان کے حرم ایسی یہودی وعیسائی حسیناؤ ں سے بھر ے پڑے تھے جنہیں تر بیت دے کروہاں داخل کیا جا تا غیرمعمولی حسن اور اداکاری میں کمال رکھنے والی یہ لڑکیا ں مسلمان حکمرانوں کے انفرادی کر دار اور قومی جذبات کو دیمک کی طرح چاٹ رہی تھیں۔
با ہمی اتحاد کا انتہائی فقدان تھا اور صلیبی حکمران جن میں فرنیک نمایاں تھا ایک کے بعد دوسری اسلامی سلطنت ہڑپ کر تا چلاجا رہا تھا حتیٰ کہ بعض مسلم حکمران شاہ فرنیک کو باقاعدہ سالانہ جزیہ ادا کرتے تھے
مسلمانوں میں فرقہ پرستی جیسی وباء بھی روز بروز فروغ پا رہی تھی جس میں حسن بن صباح جیسے مفاد پرست مذہبی رہنماکے پیروکار انتہائی پراسراراور خطر ناک طریقوں سے سر گرم تھے یہ لوگ فدائی کہلاتے تھے اور
حشیش جیسے نشہ سے مسلمانوں کو اپنے جال میں پھنسا تے‘سلطان نظام ا لملک کو جو صلیبیوں کی تو سیع پسندی کی راہ میں چٹان کی طرح ڈٹے ہوئے تھے اور ایک ایسامدرسہ بھی چلا رہے تھے جہاں اسلامی تعلیمات کے ساتھ تاریخ کا درس بھی دیا جاتا تھا اسی فرقہ کے فدائیوں کے ہاتھوں رومیوں نے قتل کروایا تھا‘ صلاح لدین ایوبی بھی اسی مدرسہ سے فارغ التحصیل تھے جہا ں نورالدین زنگی نے بحیثیت استاد آپ کو جنگی چالو ں کے علاوہ ملکی انتظامات چلانے اور ڈپلومیسی میں مہارت سکھا ئی تھی اسی تعلیم وتربیت نے صلاح لدین ایوبی میں وہ جذ بہ پیداکیا تھا جو آگے چل کر اسلام دشمنو ں کے لئے سب سے بڑی مصیبت بنا۔آپ نے مصرمیں حکومتی ذمہ داریا ں سنبھالیں تو فن حرب و ضرب کے ساتھ جا سوسی اور گوریلا آپر یشن کو بھی خا ص اہمیت دی اس لئے کہ صلیبی جاسوسی کے میدان میں بہت آگے نکل چکے تھے اور اسلامی نظر یات پرکا فی کارگرحملے کر ر ہے تھے۔
مسلمان امراء میں ا نہوں نے ایسے بہت سے کر دار ڈھونڈلئے تھے جو سستے داموں اپنے ایمان بیچ دیتے اور اُن کی تعداد میں تیزی کے ساتھ اضافہ بھی ہوتا جارہا تھاچنانچہ ایسے حالات میں ضروری تھا کہ تلوار کے استعمال کے ساتھ تحمل اور بردباری کا مظاہر ہ بھی کیا جائے تا کہ بیرونی دشمنو ں کے ساتھ ایسے اندرونی دشمنوں کو بھی راہ راست پرلا یا جائے جو جانے انجاے میں یہودوانصاریٰ کی سازشوں کو آگے بڑھارہے تھے۔ مصر کا ایک مشہور واقعہ ہے کہ صلاح لدین ایوبی کے چچازاد بھائی خلیفہ الصالح اور اس کے ایک امیر سیف الدین کو صلیبیوں نے زروجواہرات کا لالچ دے کر صلاح لدین ایوبی کو شکست دینے کی سازش کی چنانچہ صلیبیوں نے اسلامی لشکر پر حملہ جو کیا تو ان دونوں نے ہر طریقہ سے اُن کی مدد کی لیکن اس کے باوجود اسلامی لشکر کو فتح نصیب ہوئی اوریہ دونوں اپنا مال و متاع خیمہ گا ہو ں میں چھوڑ کر لشکر سے فرار ہو گئے
مال و متاع میں رنگ بر نگے پرندے، حسین اور جوان رقا صائیں، گانے والیاں، سازندے اور شراب کے مٹکے بر آمدہوئے سلطان صلاح لدین ایوبی نے ان سب کو رہاکر دیا اور اپنے چچازاداور سیف الدین کو ایک خط میں لکھاکہ تم نے کفار کی پشت پناہی سے میرا نام و نشان مٹانا چاہااور یہ نہ سو چا کہ تمہاری یہ سازش عا لم اسلام کا بھی نام ونشان مٹا سکتی ہے۔
مجھ سے حسد کے باعث تم نے مجھ پر دو قاتلانہ حملے بھی کروائے لیکن ناکام رہے موقع ملے تو ایک کوشش پھر کر دیکھو شاہد کامیاب ہوجاؤ شاہ فرنیک اور ریمانڈ جیسے اسلام دشمن صلیبی تمہارے دوست صرف اس لئے ہے کہ تم نے انہیں مسلمانوں کے خلاف میدان میں اُترنے کی شہ اور مدد دی تھی اگر وہ کامیاب ہو جاتے تو ان کا اگلا شکار تم ہو تے اور اس کے بعد اُن کا یہ خواب بھی پورا ہوجاتا کہ اسلام صفحہ ہستی سے مٹ جائے اپنا ماضی دیکھو اور یاد رکھو کہ تم ایک جنگجو قوم کے فرد ہو فن سپاہی تمہارا قومی پیشہ ہے اور ہر مسلمان اللہ کا سپاہی ہے مگر ایمان اور اچھا کردار بنیادی شر ط ہے سپاہ گری اس آدمی کے لئے خطرناک کھیل ہے جو عورت اور شراب کا
دلدادہ ہو میں تم سے ایک بار پھر درخواست کرتا ہوں کہ میرے ساتھ تعاون کرو اور جہاد میں شریک ہو جاؤ اگر یہ نہ کر سکو تو میری مخالفت سے باز آجاؤ میں تمہیں کوئی سزا نہیں دوں گا اللہ تمہارے گناہ معاف کرے۔امین