آصف شاہ‘ نمائندہ پنڈی پوسٹ
سیاست عوامی خدمت کا نام ہے جس میں منتخب نمائندے عوام کے بنیادی مسائل کو حل کرنے کے لیے سر گرم عمل نظر آتے ہیں لیکن ہمارے ہاں اس کا معیار کچھ اور ہی ہے کہ جو نمائندہ عوام کے لیے بڑھ چڑھ کے کام کرنے کی کوشش کرتا ہے اس کے راستے میں نادیدہ رکاوٹوں کا ایک جال بچھا دیا جاتا ہے یوسی غزن آباد جہاں کے چیئرمین اور وائس چیئرمین کروڑوں کے ترقیاتی کاموں کو نہ صرف پایہ تکمیل تک پہنچا رہے ہیں بلکہ اس کی کڑی نگرانی بھی کی جارہی ہے جس سے متعلقہ ٹھیکیداربھی پریشان نظر آرہا ہے لیکن اس معاملے کا سہرا یوسی کے وائس چیئرمین ظفر مغل کے سر جاتا ہے جس نے کام کی کڑی نگرانی شروع کر رکھی ہے ان کا کہنا ہے کہ کام روز روز نہیں ہوتے اور ہم اسی کام کے لیے منتخب ہوئے ہیں اگر یہ کام بھی نہ کر سکں تو پھر ہمیں بھی خاموشی سے گھر بیٹھ جانا چاہیے لیکن اسی یوسی میں انہی کی پارٹی کا ایک دھڑا ان کے کاموں کی مخالفت میں پیش پیش ہے اور سوشل میڈیا پر ان کے خلاف وقتا فوقتا پوسٹس شیئر کرتا ہوا بھی نظر آتا ہے نمائندوں پر تنقید اچھی بات ہے لیکن اپنا ذاتی غصہ نکالنا کہاں کا انصاف ہے یہاں کریڈٹ طارق یسین اور ظفر مغل کی ٹیم کو جاتا ہے کہ جن لوگوں نے ان کے خلاف الیکشن لڑا تھا انہوں نے اپنے مخالفین کو بھی اپنے ساتھ ملا لیا ہے ان میں کیپٹن فاروق پینل سر فہرست ہے اور اب وہ یوسی کیلیے ایک پلیٹ فارم پر مل کر کام کر رہے ہیں ساگری لنک روڈ چند ماہ قبل لاکھوں کی لاگت سے تعمیر ہونے والی روڈ ناقص میڑیل کی وجہ سے ٹوٹ پھوٹ کا شکار تھی اس کو ایک مرتبہ پھر کنگریٹ کیا جا رہا ہے اور اس کے مختلف حصوں کو دوبارہ تعمیر کے عمل سے گزارا جا رہا ہے اس پر چیئرمین یوسی راجہ شہزاد یونس کا کہنا ہے کہ اس رو ڈ کی دوبارہ تعمیر اسی پرانے ٹینڈر سے کی جا رہی ہے سابقہ ٹھیکدار نے اس پر کام صیح نہیں کررہا تھا جس پر اس کے خلاف محکمانہ انکرائری بھی شروع ہونے کا عندیہ دیا گیا تھا لیکن سفارشی عناصر نے ٹھیکدار کو اس معاملہ سے ایسے نکال لیا جیسے مکھن سے بال نکال لیا جاتا ہے جبکہ زرائع کے مطابق رو ڈ کی تعمیر کے لیے پچاسی لاکھ کی رقم ایک بار پھر دان کر دی گئی ہے یقیناًحکومتی خزانے کا ہلکا سا جھٹکا ہے لیکن اس کام کو خراب کرنے والے ٹھیکدار کے خلاف اب تک کاروائی نہ کرنے پر بھی ایک سوالیہ نشان اپنی جگہ پر موجود ہے،اس سوال کا جواب یقیناًچیئرمین یوسی کے پاس ہو گا اور وہی اس کا جواب بہتر طریقہ سے دے سکتے ہیں کہ سابقہ ٹھیکدار کو کیوں چھوڑ دیا گیا ہے اب ایک نظر یوسی لوہدرہ کی جانب یہاں کونسلرز نے گزشتہ اجلاس میں فنڈز کی فراہمی غیر منتخب نمائندوں کو دینے پر اپنے تحفظات کا اظہار کیا کونسلرز کا کہنا تھا کہ یہ کہاں کا انصاف ہے کہ عوام نے ہمیں منتخب کیا تھا لیکن ہماری وارڈوں میں کام وہ لوگ کروا رہے ہیں جن کو عوام نے مسترد کر دیا ہے یہاں واٹر سپلائی منصوبہ پر انتہائی تیزی سے کام جاری وسار ی ہے ر اگلے ماہ سے اس کے چالو ہونے کے بھی چانسز ہیں لیکن اس منصوبے میں ایک واٹر ٹینکی بھی شامل تھی جس پر لگ بھگ پچاس سے پچپن لاکھ کی لاگت مختص کی گئی تھی اس کو بنائے بغیرپرانی ٹینکی سے جوڑ دیا گیا ہے لیکن اس کے لیے بنائی جانے والی ٹینکی ابھی تک نہیں بنی اور نہ ہی اس رقم کا پتہ چلا ہے کہ وہ کہاں گئی ہے لیکن اب حقائق کو عوام کے سامنے لانے کی ذمہ داری اسی یوسی کے چیئرمین نویدبھٹی اور وائس چیئرمین راجہ یونس کے سر ہے گوکہ وہ اس بات کا اعلان کرتے نظر آتے ہیں کہ یہ منصوبہ ان کو نہیں دیا گیا ہے لیکن وہ اس یوسی کے منتخب نمائندے ہیں اور ان کا یہ کام بنتا ہے کہ وہ اس کام کی مکمل تحقیق کریں اورعوام کے سامنے حقائق رکھیں کہ پچاس لاکھ کہاں گئے ہیں لیکن اگر وہ اس معاملے میں خاموشی اختیار کرتے ہیں تو یقیناًان کی کار کردگی پر ایک سوالیہ نشان اٹھے گا چیئرمین اور وائس چیئرمین کو عوام کو حقائق سے اگاہ کرنے میں اپنا کردار اد ا کرنا ہو گا اور اگر وہ ایسا کرنے میں ناکام رہتے ہیں تو یوسی لوہدرہ کی عوام ان سے اس سوال کا جواب پوچھنے کا پورا حق رکھتی ہے کہ انہوں نے جن لوگوں کو اس یوسی سے منتخب کر کے مسند اقتدار پر بٹھایا تھااور اسی یوسی میں ان کی نمائندگی مرضی کے بغیر اگر اتنا بڑا کام ہوا تو انہوں نے اس کو روکا کیوں نہیں اور اس کو چوہدری نثار تک کیوں نہیں پہنچایا اور اگر انہوں نے اس کو چوہدری نثار کے گوش گزار کیا تو اس حوالہ سے انہوں نے کیا اقدامات کیے یہ وہ سوالات ہیں جن کو جواب یوسی لوہدرہ کی عوام جاننا چاہتی ہے اور ان کے جوابات موجودہ چیئرمین نوید بھٹی اور وائس چیئرمین راجہ یونس کے پاس ہیں یا پھر چوہدری نثار علی خان کے پاس اور عوام کو ان پچاس لاکھ کا جواب چاہیے کون دے گایہ سوال اپنا جواب مانگ رہا ہے؟؟؟؟
144