یونس کمال نوشاہی قتل کا بے گناہ قیدی

راقم نے بطور نمائندہ پنڈی پوسٹ کے خطہ پوٹھوہار کی اہم سیاسی سماجی علمی ومذہبی شخصیات انکی خدمات اور حالات زندگی کے پس منظر کو عوام میں متعارف کرانے کے حوالے سے بالمشافہ ملاقات کا سلسلہ شروع کر رکھا ہے اسی حوالے سے گزشتہ ہفتے تحصیل گوجرخان کے گاؤں موہڑہ نوزاں کا وزٹ کرنے کا موقعہ ملا۔موہڑہ نوزاں جو موہڑہ نوجو کے نام سے بھی اپنی ایک الگ شناخت رکھتا ہے بھاٹہ گاؤں سے مغرب کی جانب ایک ڈیڑھ کلومیٹر کے فاصلے پر سرسبز اور حسین لوکیشن پر واقع ہے، تاریخ بھاٹہ کے مصنف قمرعبداللہ صاحب اپنی تصنیف کردہ کتاب بھاٹہ تاریخ کے آئینے میں اس گاؤں کی وجہ تسمیہ بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ کسی زمانے میں بھائی خان سے نقل مکانی کرنے والے دو نوجوان بھائیوں نے یہاں سکونت اختیار کی جسکی بنا پر اس گاؤں کا نام موہڑہ نوجو پڑ گیا یہ ایسی جگہ پر آباد ہے جہاں نشیبی علاقے میں برساتی نالے بہتے ہیں اور یہاں زیادہ تر سبزیاں کاشت کیجاتی ہیں گندم کی کاشت بھی عام ہے یہاں دھمیال راجپوت اور ملیار قوم کے لوگ آباد ہیں۔موہڑہ نوجو یا نوزاں کے دورے کے موقعہ پر قاضی عبدالرحمن فاروقی سیدبدراسلام گیلانی اورمحمد عمران ایڈووکیٹ بھی ہمراہ تھے ہم پہلے ہی طے شدہ شیڈول کے مطابق گاؤں موہڑہ نوزاں کی شہرہ آفاق شخصیت جناب الحاج قاری محمد یونس کمال نوشاہی سے ملاقات کیلیے انکی رہائشگاہ پہنچے انہوں نے کشادہ دلی سے ہمارا استقبال کیا ان سے ملاقات اور بات چیت کے دوران انکے حالات زندگی کے بارے میں آگہی حاصل ہوئی،آپکے والد محترم یوسف کمال نوشاہی نے 15مئی 1922میں تحصیل کہوٹہ کے علاقے لہڑی سے نقل مکانی کرکے موہڑہ نوزاں میں آکر آباد ہوئے، چونکہ انکو مذہب کیساتھ خاصا لگاؤ تھا اسں لیے یہاں گاؤں کی مسجد میں بطور امام خدمات سر انجام دیں اور بچوں کو قرآن پاک کی تعلیم دیتے رہے۔قاری محمد یونس کمال نوشاہی نے مڈل تک تعلیم بھاٹہ سکول میں حاصل کی بعدازاں گورنمنٹ ہائی سکول کلرسیداں سے میٹرک کا امتحان امتیازی نمبروں میں پاس کیا، بعدازاں مزید تعلیم حاصل کرنے کیلیے گورنمنٹ گورڈن کالج راولپنڈی میں داخلہ لیا آپ نے گورنمنٹ گورڈن کالج راولپنڈی سے ایف ایس سی جبکہ بریڈفورڈ یونیورسٹی انگلینڈ سے بی ایس سی کی ڈگری حاصل کی،تعلیم مکمل کرنے کے بعد سابق وزیراعظم یوسف رضا گیلانی کے چچازاد بھائی سید مخدوم گیلانی کیساتھ بطور سول انجینئر پروجیکٹ منیجر کے طور پر کام کیا،اپ دنیا کے کے 45 سے زائد ممالک کے دورے کرچکے ہیں اور کئی زبانوں پر اپکو دسترس حاصل ہے انگلش فارسی اردو،پنجابی،بنگالی، اورعربی زبانیں لکھنے اور بولنے پر مکمل عبورحاصلِ ہے،اپ جب ابو ظہبی میں مقیم تھے تو وہاں بنگلہ دیش کی ایک فیملی کیساتھ رسم وراہ استوار ہوئے اور معاشقے کا سلسلہ چل پڑا جو بعد میں شادی پر جاکر اختتام ہوا بنگلہ دیش کے دارالحکومت ڈھاکہ کی رہائشی فیملی سے پسند کی شادی کی اور بارات لے کر ڈھاکہ گئے تھے۔ آپکی زندگی نشیب و فراز سے ہوکر گزری سال 1998 میں راولپنڈی کے علاقے بارہ کہو میں دوستوں کی محفل میں اٹھنا بیٹھنا تھا ایک صفدر نامی شخص کے قتل کے الزام میں آپ 25نومبر2005 سے 2010تک پابند سلاسل رہے اور بعدازاں عدم ثبوت کی بنا پر اپکو اڈیالہ جیل سے رہا کردیا گیا سال 1998 میں جب آپ اڈیالہ جیل میں قید کاٹ رہے تھے اس دوران اڈیالہ جیل میں قید بطور سیاسی قیدی کے سابق وزیراعظم سیدیوسف رضا گیلانی کو دو سال تک قرآن پاک کی تعلیم دی بعدازاں یوسف رضا گیلانی جب ملک کے وزیراعظم منتخب ہوئے تو انہوں نے بحیثیت ملک کے وزیراعظم اڈیالہ جیل کا دورہ کیا،اس وقت آپ جیل میں قید تھے جب انہوں نے اپکو دیکھا تو فوراً پہچان لیا اور سزا اور رہائی کے بارے میں دریافت کیا جب سابق وزیراعظم کو معلوم ہوا کہ آپ جرمانے کی عدم ادائیگی کے نتیجے میں بقیہ جیل کی قید کاٹ رہے ہیں تو سابق وزیراعظم یوسف رضا گیلانی نے 98لاکھ روپے جرمانے کی مد میں ادائیگی کی جسکے نتیجے میں آپ اور آپکے ہمراہ دیگر 15افراد کو جیل سے رہا کردیا گیا۔جیل ھذا میں 4سال اسیری کے دوران تجوید القرآن، قرات وناظرہ کیساتھ آیات کریمہ اور احادیث شریف کی خطاطی جیسی خدمات سر انجام دینے پر اپکو امتیازی سند سے بھی نوازا گیا۔تاہم 2012 میں آپکی زندگی میں پھر ایک موڑ آیا جب یوسی بشندوٹ کے گاؤں ہدوالہ کے قریب جنگل سے ایک نامعلوم شخص کی لاش برآمد ہوئی تھی اس شخص کے قتل میں ملوث ہونے کے شبہ میں اس واقعہ میں اپکو دوبارہ 302کے مقدمے میں گرفتار کرلیا گیا تاہم دوسری مرتبہ بھی عدم شواہد کی بنا پر محض 41دن کے بعد آپکو اڈیالہ جیل سے رہا کردیا گیا،اپ ایک اعلی درجے کے قاری ہیں جبکہ عالمی شہرت یافتہ قاری صداقت علی سے بھی دینی تعلیمات سے استفادہ کیا۔اپ ایک پراسرار شخصیت کے حامل انسان ہیں اور میری اس پہلی ملاقات میں آپکی زندگی کی چند پہلوؤں کو کھوجنے کا موقعہ ملا جبکہ ابھی آپکی شخصیت اور زندگی کے نشیب و فراز کے دیگر پہلوؤں کو کریدنے کی تشنگی باقی ہے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں