یوم پاکستان‘کیا کھویا کیا پایا

مسلمانوں نے برصغیر پاک وہند میں ایک لمبے عرصے تک حکمرانی کی بے ان کی طرز حکمرانی میں بے شمار نقائص تھے اور ہوں گے بھی میں ان کا دفاع نہیں کروں گا لیکن ایک خوبی تقریباً سب میں مشترک تھی بلکہ یوں کہہ لیں کہ کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی تھی اقلیتوں کے حقوق کا تحفظ ان کے ساتھ حسن سلوک‘رواداری‘ محبت‘بھائی چارہ‘ مساوات‘عدل و انصاف پیش آنا اور کسی بھی موقع پر مسلمانوں کو غیر مسلم پر ترجیح نہ دینا اور نہ ہی آج تک ایک بھی شہادت موصول ہوئی ہے کہ کبھی بھی مسلمان حکمرانوں نے یا ان کی مسلمان رعایا نے زبردستی غیر مسلم کو مسلمان کیا ہو یا ان پر اس بنا پرظلم ہو کہ وہ غیر مسلم ہیں یا ان کے بنیادی حقوق سلب کیے ہوں اس بنیاد پر کہ وہ مسلمان نہیں اس کے باوجود جب مسلم دور حکمرانی اپنے بام عروج پر تھا تو اس وقت کے مسلم مفکرین ابوالریحان البیرونی اور حضرت مجدد الف ثانی ؒو دیگر نے دو قومی نظریہ بڑی شدومد کے ساتھ پیش کیا جسے البیرونی نے اپنی معرکۃ الآراء کتاب کتاب الہند میں لکھا ہے ”مسلمانوں کو یہ لوگ ملیچھ ناپاک کہتے ہیں اس وجہ سے یہ مسلمانوں سے ملنا جلنا شادی بیاہ کرنا مل کر بیٹھنا قریب رہنا اور ان کے ساتھ کھانا جائز نہیں سمجھتے ہندو مسلمانوں کو تکلیف پہنچانے ذلیل و خوار کرنے اپنے سے نفرت کی وجہ سے دور رکھنے اور قتل و غارت سے نیست و نابود کرنے کو مذہبی فریضہ سمجھتے ہیں ” یہ بات سچ تھی کہ صدیوں اکٹھے رہنے کے باوجود دونوں قوموں کا رہن سہن‘ کھانا پینا‘ رسم و رواج‘بول چال حتیٰ کہ ان کے ہیروز بھی مختلف تھے ان کے ہیروز مسلمانوں کے دشمن اور مسلمانوں کے ہیروز ان کے دشمن تھے تو پھر کیوں کر اکٹھے رہ سکتے تھے ان کا مسلمانوں کے خلاف بغض و عناد مسلمانوں کی حکومت کے خاتمے کے ساتھ ہی کھل کر سامنے آگیا اور انہوں نے انگریزوں کے ساتھ مل کر مسلمانوں کے خلاف سازشیں شروع کر دیں ان کی ریشہ دوانیوں کو مسلمانان برصغیر بھانپ گے کہ اب ان کے ساتھ اکٹھے رہنا نا ممکن ہے اس لیے ایک الگ خود مختار ملک کا ہونا ضروری ہے اسی غرض سے 22 مارچ 1940 کو آل انڈیا مسلم لیگ کا ستائیسواں سالانہ اجلاس لاہور کے معروف منٹو پارک(اقبال پارک) میں منعقد ہوا جس کی صدارت قائد اعظم محمد علی جناح ؒنے کی اس کی سکیورٹی کے فرائض مسلم نیشنل گارڈز نے سر انجام دیے اسٹیج پر آویزاں بینر پر سر علامہ محمد اقبال کا یہ شعر لکھا ہوا تھا۔
جہاں میں اہل ایمان صورت خورشید جیتے ہیں
ادھر ڈوبے ادھر نکلے ادھر ڈوبے ادھر نکلے
23 مارچ کو بنگال کے وزیر اعلیٰ شیر بنگال مولوی فضل حق نے قرارداد پیش کی جس میں کہا گیا تھا کہ جن علاقوں میں مسلمانوں کی عددی اکثریت ہے جیسے کہ ہندوستان کے شمال مشرقی و شمال مغربی علاقے انہیں یکجا کر کے آزاد مملکتیں قائم کی جائیں جن کو مکمل خود مختاری اور حاکمیت اعلیٰ حاصل ہو اس قرارداد کی منظوری کے صرف سات سال بعد مسلمانان برصغیر کی انتھک محنت و جدوجہد اور لاکھوں لوگوں کی قربانیوں سے ایک آزاد و خود مختار ریاست دنیا کے نقشے پر ابھری جسے پاکستان کہا جاتا ہے جو اسلامی دنیا کی سب سے بڑی اور دنیا کی پہلی نظریاتی ریاست تھی لیکن ہماری نالائقیوں‘ بے اتفاقیوں‘ گروہی تعصبات‘ نسلی و لسانی تعصب نے ہمیں زیادہ دیر اکٹھے نہیں رہنے دیا اور ہمیں
دو لخت کر دیا گیا دو لخت کیا ہونا تھا کہ ہمیں ایک دوسرے کا سب سے بڑا دشمن بنا دیا گیا اتحاد و اتفاق کے پرچاروں کو سرعام مجرم ٹھہرایا جانے لگا ان کو سزائے موت سنائی جانے لگی 23 مارچ کا دن ترچھی نگاہوں سے سوال کرتا نظر آتا ہے کہ تمہارے آبا ؤ اجداد نے کن کن مشکل مراحل سے گزر کر یہ ملک حاصل کیا تھا کتنی عورتوں کی عصمت دری ہوئی کتنے نوجوانوں نے اپنی جوانیاں قربان کیں کتنے آزادی کی حسرت آنکھوں میں بسائے رخصت ہوگئے کئیوں نے تو اپنا گھر بار زمین جائیداد سب کچھ قربان کر دیا یہ سب قربانیاں کیوں اور کس لیے تھیں آیا زمین کا صرف محض ایک ٹکڑا حاصل کرنا مقصود تھا یا کوئی اور مقاصد تھے آیا تم وہ مقاصد حاصل کرنے میں کامیاب ہوئے یا نہیں تو جواب یقینانفی میں ہو گا ہم نے انگریزوں اور ہندوؤں سے آزادی تو حاصل کر لی صرف اور صرف جسمانی لحاظ سے باقی تو ہم کلی طور پر انکے غلام ہیں تہذیب و تمدن ثقافت‘رہن سہن‘ بول چال‘طور اطوار‘شادی بیاہ کے رسم ورواج بھی ان جیسے معاشی‘معاشرتی‘تعلیمی‘سیاسی دفاعی داخلی و خارجی تمام پالیسیاں ان کی حتیٰ کہ اعلیٰ ترین عہدوں (بقول کوثر علی نیازی) پر تعیناتیاں ان کے کہنے پر شواہد آئے روز میڈیا کی زینت رہتے ہیں تو پھر آزادی اور اس کے مقاصد کدھر گئے اسلامی فلاحی نظام بھی دھرا کا دھرا رہ گیا غریب پہلے کی طرح مسلسل چکی میں پس رہا ہے بزرگوں کو توکہتے سنا گیا اس سے تو انگریز کا دور بہتر تھا آزادی کے چند سال بعد اس نے تھوڑا وقت سکون سے گزارا بعض ازاں تو اس کا برا حال ہے سارے ہی اسے کنڈی دینے کی بجائے قطار میں کھڑا کر کے بھکاری بنا رہے ہیں ملک کی بھاگ دوڑ مداریوں کے ہاتھ میں ہے اپنی ڈگڈگی پر عوام الناس کو نچوانا ان کا کام ہے عوام الناس نے دو دفعہ 1970 اور 2018 میں اپنی حالت بدلنے کی کوشش کی لیکن بعد ازاں دیکھا تو سامنے ڈگڈگی نئی تھی لیکن مداری پرانے نکلے 23 مارچ کے چبتے سوالات کا جواب اور آزادی کے حقیقی مقاصد کے حصول کا واحد حل میرے خیال میں ایک ہی ہے اس عوام دشمن نظام کوہی سرے سے پلٹ دینا۔

اپنا تبصرہ بھیجیں