یوم تکبیر

پروفیسر محمد حسین

آ ج سے انیس سال قبل 28مئی 1998کو پاکستان نے چاغی کے پہاڑوں میں ایٹمی دھماکے کرکے دنیا بھرکو اپنے ایٹمی قوت حاصل کرنے کا اعتراف کیا پاکستان ایٹمی دھماکوں سے ستررہ روز قبل مئی1998کو بھارت نے پوکھرا ن میں ایٹمی دھماکے کئے تھے اور علاقے میں طاقت کا توازن بگڑ گیا تھا

بھارتی دھماکوں کے ساتھ ہی انتہا پسند بھارتی رہنماؤں کے لہجے میں تبدیلی آگئی اور وہ پاکستان فتح کرنے کیلئے اپنے دیرینہ خواب کو انکھوں میں سجا بیھٹے بھارت کے توسیع پسندانہ عزائم اور دھونس دھمکیوں کے بعد پاکستان کے پاس مناسب جواب دینے کا کوئی راستہ نہ بچا اور یوں پاکستان نے انتہائی اہم اقدام اٹھانے کا فیصلہ کر لیا

اس نازک ترین مرحلے میں اُس وقت کے وزیر اعظم محمد نواز شریف نے امریکی صدر کے پانچ ٹیلی جون کالز اور اربوں ڈالرز کی پیشکش کو ٹھکراتے ہوئے وہی کیا جو قوم کی آواز تھی اور چھ ایٹمی دھماکے کرکے حساب برابر کر دیا چاغی کے رنگ بدلتے پہاڑوں نے نہ صرف پاکستان قوم اور امت مسلمہ کا سرفخر سے بلند کردیا

بلکہ پاکستان پر قبضہ کرنے والے بھارتیوں کا غرور بھی خاک میں ملا دیا عالمی طاقتو ں کے شدید دباؤ اور مراعا ت کی پیشکش کو ٹھکرا کر دھماکے کرنے کی پاداش میں پاکستان کو عالمی برادری میں تنہا کرنے کی پوری پوری کوشش کی گئی اور پاکستان کو پابندیوں کا سامنا کرنا پڑا ہر محاذ پر ہر دوستی کا حق نبھانے والے سعودی عرب اور چین نے اس کٹھن وقت میں پاکستان کا بھرپور ساتھ دیا اور عالمی برادری کے مقابلے میں پاکستان حمایت جاری رکھی،ایٹمی دھماکوں کے بعد اس وقت کے وزیر اعظم محمد نواز شریف نے 28مئی کو سرکاری طور پر یوم تکبیر منانے کا اعلان کیا اسی دن کی مناسبت سے ملک میں دعائیہ تقاریب اور مختلف سیمینارز کا انعقاد سرکاری اور عوامی سطح پر کیا جاتا ہے پاکستان ایٹمی قوت رکھنے والا دنیا کا ساتواں اور عالم اسلام کا پہلا ملک بن گیا

چاغی میں ہونے والے ایٹمی دھماکوں کی قوت بھارت کے 43کلو ٹن کے مقابلے میں 50کلوٹن تھی بھارت کے ایٹمی دھماکوں کے بعد پاکستان کی سلامتی اورآزادی کیلئے خطرات پیدا ہوگئے تھے اور علاقہ میں طاقت کا توازن تبدیل ہونے سے بھارت کے جارحانہ عزائم کی تکمیل کی راہ ہموار ہوگئی تھی جسے روکنے کیلئے پاکستانی عوام کے علاوہ اسلام کے پاکستا ن دوست حلقوں کی طرف سے سخت ترین دباؤ ڈالا جارہا تھا کہ پاکستان بھی ایٹمی تجربہ کر کے بھارت کو منہ توڑ جواب دے پاکستان کے اس اقدام کو امریکہ اور یورپ کی تائید حاصل نہ تھی یہی وجہ تھی کہ امریکی صدر کلنٹن ،برطانوی وزیر اعظم ٹونی بلیئر اور جاپانی وزیراعظم موتو نے پاکستان پر سخت ترین ڈباؤ ڈالا کہ پاکستان ایٹمی دھماکے نہ کرے ورنہ اس کے خلاف سخت ترین پابندیاں عائد کردی جائیں گی

دوسری طرف بھارت کی معاندانہ سرگرمیوں کی صورتحال یہ تھی کہ بھارت نے ایٹمی دھماکے کرنے کے علاوہ کشمیری کنٹرول لائن پر فوج جمع کردی تھی اس طرح پاکستان بھارت جنگ کا حقیقی خطرہ پیدا ہوگیا تھا بھارتی وزیر داخلہ اور امور کشمیر کے انچارج ایل کے ایڈوانی نے بھارتی فوج کو حکم دیا کہ وہ مجاہدین کے کیمپ تباہ کرنے لگے آزاد کشمیر میں داخل ہو جائیں بھارتی وزیر دفاع جارج فرنینڈس نے تو یہاں تک ہرزہ سرائی کی تھی کہ بھارتی فوج کو ایٹمی ہتھیاروں سے لیس کر دیا جائے گا یہ سب کچھ پاکستان کے خلاف جارخانہ اقدامات کی تیاریاں تھیں یہ درست ہے کہ بھارت نے ایٹمی دھماکے کرکے ایک ازاد اور خود مختار ملک کی حیثیت سے اپنے حق کا استعمال کیا

مگر یہ بات بھی اپنی جگہ ایک حقیقت ہے کہ بھارت کے ایٹمی دھماکوں کا واضع مقصد صرف اورصرف پاکستان کو خوفزدہ کرنا تھا اور ایک طاقتورملک ہونے کا ثبوت دے کر پاکستان سمیت یورپ خطے کے ممالک پر اپنی برتری جتانا تھا بھارت کے حکمرانوں اور سیاستدانوں کا پاکستان کے بارے میں لہجہ ہی بدل گیاتھا اس سلسلے میں عالمی شہرت یافتہ خبر رساں ایجنسی اے ایف پی نے دہلی سے ایک خبر جاری کی جس میں بھارتی دفاعی ماہرین کی طرف سے واجپائی حکومت کے دھماکوں کو ایک جرا ت مندانہ اقدام قرار دیا گیا

اور کہا گیا کہ اس سے ثابت ہوتا ہے کہ بھارت عالمی دباؤ کا مقابلہ کر سکتا ہے بھارت نے پاکستان پر الزام لگایا کہ پاکستان اپنے اپ کو فوری ردعمل ہتھیاروں سے لیس کررہا ہے اوریہ کہ پاکستان مائع ایندھن سے ٹھوس ایندھن کے راستے پر چل پڑا ہے یعنی پلوٹونیم جو سبک رفتاری سے ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقل کئے جا سکتے ہیں اور یہ کہ ان کی تعداد بھی بڑھادی ہے اوریہ چھوٹے ایٹمی ہتھیارکروز میزائل اور کم فاصلہ کے مار کرنے والے میزائلوں سے داغے جا سکتے ہیں

حقیقت یہ کہ بھارت دنیا کی واحد اسلامی ایٹمی طاقت پاکستان کے خلاف زہریلے پروپیگنڈے کے زریعے دنیا بھر کو گمراہ کرنے کی کوشش کر رہا ہے پاکستان نے ایٹمی دھماکہ کرکے حربی قوت توحاصل کرلی لیکن ذرا سوچئے کہ ذہنی طور پر پاکستان اسلام اور مسلمانوں کو پوری طرح دفاع نہ کر سکا مسئلہ کشمیر جس کی حق خود ارادیت اقوام متحدہ بھی تسلیم کر چکی ہے مقبوضہ کشمیر میں جاری آزادی کی تحریک کو پاکستان اس طرح سپورٹ نہ کر سکا جسکی امید کشمیری اور پاکستانی عوام کررہے تھے اب وقت کا تقاضا یہ ہے کہ پاکستان اقوام عالم میں اپنا بھر پور کردار ادا کرے

جس کی توقع امت مسلمہ اس سے کر رہی ہے پاکستان کو چایئے کہ وہ مسلمانوں کے خلاف جاری تحریکوں اور پروپیگنڈ وں کا بھر پور انداز سے دفاع کرے اور وہ اپنی سرحدوں سے نکل کر امت مسلمہ کے مسائل میں دلچسپی لے خصوصی طور پر اس وقت مقبوضہ کشمیر ،برما، شام، عراق،یمن میں مسلمانوں پر مظالم کے جو پہاڑ توڑے جا رہے ہیں اور مسلمانوں کو گاجر مولی کی طرح قتل کیا جارہا ہے ایٹمی طاقت ہونے کے ناطے پاکستان کو اہم اور مثبت کردار ادا کرکے مسلمانوں کے قتل عام کو بندکرانا چایئے پھر ایسی صورت میں پاکستان یوم تکبیر منانے کا اہل ثابت ہوسکتا ہے

اور یوم تکبیر کے یہی تقاضے ہیں یوم تکبیر کا تقاضا یہ بھی ہے ہم اس دن یہ عہد کریں کہ اس ملک کی نظریاتی اور جغرافیائی سرحدوں کی حفاطت کریں گے اور ہم اندورنی طور پر متحد ہوکر ہی بیرورنی دشمنوں کا مقابلہ کر سکتے ہیں ہمیں ایٹمی قوت ہونے کے ساتھ ساتھ ایک آزاد اور خود مختار خارجہ پالیسی اور معاشی قوت کے طورپرابھرنے کا عہد بھی کرنا ہوگا

اپنا تبصرہ بھیجیں