تقسیم ہند کے وقت برطانوی ہند وستان میں پانچ سو پنسٹھ شخصی ریاستیں تھیں ان ریاستوں کو یہ اختیار دیا گیا تھا کہ وہ پاکستان یاہندوستان میں سے جس کے ساتھ چاہیں الحاق کریں ریاست جموں و کشمیر کو الحاق کے ساتھ تیسراآپشن یہ دیا گیا تھا کہ اگر وہ آزاد و خود مختار رہنا چاہیں تو رہ سکتے ہیں ریاست جموں وکشمیر میں اسی فیصد آبادی مسلمانوں کی تھی کشمیر کے بہنے و الے تمام دریاؤں کا رخ پاکستان کی طرف تھا تمام راستے قدرتی طور پاکستان کی طرف جاتے تھے اور سات سو میل لمبی سرحد پاکستان کے ساتھ ملتی تھی لیکن اہل پاکستان کے ساتھ جو سب سے بڑارشتہ تھا وہ اسلام کا رشتہ تھا۔چو نکہ یہ ملک اسلام کے نام پر بن رہا تھا اس لئے اہل کشمیر پاکستان کے ساتھ الحا ق چاہتے تھے۔جس طرح ہندوستان میں مسلم لیگ مسلمان کے حقوق کے تحفظ کے لئے بنائی گئی تھی اس طرح کشمیرمیں مسلم کا نفرنس کشمیر ی مسلمان کا سیاسی پلیٹ فارم تھا جس طرح ہندوستان میں چوٹی کے مسلم رہنما کا نگریس اور تحریک احرار کے کارکن تھے اور پاکستان بنانے کے مخالف تھے اسی طرح کشمیری قیادت میں کچھ لوگ الحاق پاکستان کے مخالف تھے
شیخ عبداللہ نے مسلم کانفرنس کو نیشنل کا نفرنس میں تبدیل کر دیا جو کشمیری مسلمان کے لئے ایک بڑا دھچکا تھا چوہدری غلام عباس، سردار ابراہیم،حمید اللہ اور میر وعظ نے از سرنو مسلم کا نفر نس کو منظم کیا لیکن میر واعظ پھر ان سے الگ ہو گئے اور مسلم کانفرنس کا ایک الگ گروپ بنا کر اس کے رہنما بن گئے جب برصغیر کی تقسیم ہوئی تو مہا راجہ نے کشمیر کا الحاق ہندوستان کے ساتھ کشمیری مسلمانوں اور کشمیری عوام کی خواہشات کے خلاف کر دیا جبکہ قرار دار الحاق پاکستان سردار ابراہیم خان کی رہائش گاہ سری نگر میں 19اگست 1947پاس ہوئی الحاق پاکستان کی قرار دار کے ساتھ ہی ڈوگر ہ حرکت میں آگئے یہ قرادار پاس کروانا خود کو موت کے منہ میں دینے میں دینے کے مترادف تھا چنانچہ 29اگست 1947کو دوتھان (پونچھ) کے مقام سے جنگ آزادی اور جہادنی فی سبیل اللہ کا آغاز ڈوگرہ مہا راجہ کی فوج کے ساتھ ایک جھڑپ سے ہوا اور پانچ مجاہدین نے جام شہادت نوش کیا
پھر ضلع باغ میں ہزاروں افراد کے ایک جلوس پر ڈوگروں نے گولیاں چلائیں جن کی وجہ سے بہت سے مسلمان شہید ہو گئے یہ جلسہ ڈوگرہ ظلم وبر بریت کے خلاف بطور احتجاج منعقد ہوا تھا۔3اکتوبر کو منگ اور دھیر کوٹ سے باقاعدہ لڑائی شروع ہو گئی جنگ میں لڑائی کی وجہ سے سپیشل جج جگت رام کا صوبیدار اللہ دتہ خان کے ہاتھوں قتل تھا د ھیر کوٹ میں سردار عبدالقیوم خان کے ہا تھوں ڈوگرہ تھا نے پر حملہ تھا اس کے ساتھ ہی ڈوگروں نے پکڑ دھکڑ شروع کر دی سدھنو تی باغ اور روالاکوٹ میں اکثریت ریٹائرڈ فو جیوں کی تھی جنھوں نے بر طانوی فوج میں خدمات انجام دی تھیں یہ سب لوگ منظم ہوئے اور انھوں نے ایک وار کونسل قائم کی وارکونسل نے محاذوں کو اس طرح تقسیم کیا۔مظفر آباد سے گلگت تک،کوہالہ سے میر پور تک،میر پور سے سیالکوٹ تک،ان تینوں محازوں کی کمان شہید ملت کپٹن حسین شہید، پیراصفر، علی شاہ، سردار عبدالقیوم خان کرنل رحمت اللہ خان، راجہ سخی دلیر خان (کوٹلی)اور کپٹن خان محمد خان آف منگ کے حوالے تھی
دیکھتے ہی دیکھتے جنگ کے شعلے میر پور بھمبر کوٹلی اور مظفر آباد تک بھڑک اٹھے سامان ضرب وحرب کی کمی کے باوجود مجاہدین کشمیر آگے بڑھ رہے تھے قریب تھا کہ مجاہدین جموں اور سرینگر تک پہنچ جائیں ہندوستان روتا چیختااقوام متحدہ میں پہنچ گیا اور جنگ بندی کی اپیل کی۔دوسرے طرف غازی ملت سردار ابراہیم خان سیاسی محاذ کو سنبھالے ہوئے تھے
۔اس کے ساتھ ہی مجاہدین کے لئے اسلحہ کا بندوبست کرنا اور بین الاقوامی دنیا کے سامنے اپنا مو قف پیش کرنا اور 4اکتوبر1947کو شروع ہونے والی یہ جنگ ہندوستان کی اپیل پر یکم جنوری 1949کو بند ہو گئی بھارت کے نمائند ے سوامی آئنگر تھے شیخ محمد عبداللہ بھارت کی کشمیر کی طرف سے پیروی کر رہے تھے پاکستان کے نمائندے سر ظفراللہ خان تھے اور کشمیر کی آزاد حکومت کی طرف سے نمائندے سردار محمد ابراہیم خان تھے ہندوستان نے پوری دنیا کے سامنے وعدہ کیا کہ کشمیر میں حالات ساز گار ہونے پر رائے شماری کروائی جائے گی جو کشمیری چاہیں گے ان کی خواہشات کے مطابق فیصلہ کیا جائے گا
۔سردار محمد ابراہیم خان نے عالم موتمر اسلامی کے عصرانے میں یکم جون 1949کو تقریر کرتے ہوئے کہا کہ حکومت پاکستان حکومت آزاد کشمیر کو قبول کرے تا کہ کشمیری عوام کے مقدمہ کو تقویت پہنچے اس کے ساتھ ہی انہوں نے کہا کہ بھارت کی نیت ٹھیک نہیں ہے وہ رائے شماری سے بچنے کے لیے بہانے ڈھونڈ رہا ہے ہمارے خیال میں حکومت پاکستان نے کشمیرمیں لڑائی بند کر کے سنگین غلطی کی ہے جس کے نتائج آئندہ ظاہر ہوں گے سردار ابراہیم خان کے بیان کے مطابق جنگ بندی ان کے مشورہ کے بغیر کی گئی حالانکہ سردار محمدابراہیم خان کشمیر کیس میں آزاد کشمیر حکومت کی طرف سے قائداعظم محمد علی جناح کے حکم پر بحثیت نمائندہ بھیجے گئے تھے اور اس نمائندہ کو بھی نظر انداز کر کے حکومت پاکستان نے جو اہر لال نہرو کے وعدہ پر کشمیر میں جنگ بندی کروا دی اور مجاہدین آزادی کے اس طوفان کو روک دیا۔
سردار محمد ابراہیم خان اور مجاہدین نے جو علاقہ فتح کیا اس کا انتظام و انصرام چلانے کے لیے 24اکتوبر 1947کو نمائندہ حکومت کا قیام عمل میں آیا اور خود پہلے صدر بنے آزمائش و ابتدا کے ان حالات میں سرحد کے غیور فرزند خان عبدالقیوم خان نے کشمیری مجاہدین کی حتی المقدور مدد کی قبائلی علاقوں سے ہتھیاروں کی سپلائی اور قبائلیوں کا جنگ میں شریک ہونا خان کا مرہون منت ہے دوسرے پنجاب کے وزیراعلیٰ نواب ممدوٹ اور برگیڈیرشیر خان جنہوں نے جموں روڈ پر قبضہ کرنے کا منصوبہ بنایا مگر وزیراعظم راضی نہ ہوئے حالانکہ اس منصوبہ پر خان عبدالقیوم خان اور نواب ممدوٹ بہت زور دے رہے تھے کسی راہ حق کے شہید کیلئے ایک قطرہ خون کی قیمت اس دھرتی کے آزادشہری مل کر بھی نہیں دے سکتے کجاکہ ان شہیدوں کی قربانی ہو جو نہ مال غنیمت نہ کشور کشائی کے لیے لڑے اور اپنا خون دے کر قوم کی رگوں میں نیا خون پیدا کر دیا رہتی دنیا تک آزاد نسلیں ان قوم کے محسنوں شہیدوں کو سلام عقیدت پیش کرتی رہیں گی اور جب بھی راہ وفا کے ان شہیدوں کا نام آئے گا آزادی کے متوالوں کی تنی گردنیں احترام میں جھک جائیں گی۔
شہادت ہے مطلوب و مقصود مومن
نہ مال غنیمت نہ کشورکشائی
دو نیم ان کی ٹھو کر سے سحرا و دریا
سمٹ کر ان کی ہیبت سے رائی