118

یومِ تکبیر یا بقائے ملّت

ریشم کا کیڑا اپنے گرد ریشم کا تار بنانا شروع کرتا ہے اور اس وقت تک نہیں رکتا جب تک اپنے گرد بنے جال میں خود قید نہ ہو جائے‘حتیٰ کہ اکثر اسی قید میں زندگی بھی ہار بیٹھتا ہے۔
شاید شاعر نے اسی مقام کے لئے شعر لکھا ہے کہ!
ع۔ الجھا ہے پاؤں یار کا زلفِ دراز میں
لو آپ، اپنے دام میں صیّاد آ گیا
ریشم کا کیڑا انڈے سے لاروا بنتا ہے جسکے لیئے اسے اٹھارہ سے پچیس ڈگری درجہ حرارت چاہئے، پھر لاروا سے ”پیوپا“ جسے ”کوکون“ بھی کہتے ہیں اور پھر اسکے تتلی کی طرح پر نکل جاتے ہیں

تا کہ یہ پرواز کر سکے، مگر یہ اپنے مسکن یا (ہیبیٹیٹ) کو نہیں چھوڑتا۔ ریشم کا کیڑا اپنی زندگی میں تقریباََ تین ہزار
فٹ لمبا ریشم کا تار بناتا ہے جو بال سے زیادہ باریک مگر بہت مضبوط ہوتا ہے۔؎؎؎؎؎؎؎؎؎یہ کیڑاشہتوت کے پتوں میں رہتا ہے۔ اور شہتوت کے پتوں میں اسکی مادّہ تین سو سے زائد انڈے دیتی ہے

۔ پتوں میں انڈے دینے کی وجہ یہ ہے کہ اس کے انڈے کے باہر کی سطح جیلی کی طرح ہوتی ہے اور یہ انڈے با آسانی پتے سے چپک جاتے ہیں،اس دوران مادّہ کیڑا کچھ بھی خوراک نہ ملنے کی وجہ سے مر جاتی ہے۔ مختلف ممالک میں ان انڈوں کو ٹھنڈی جگہ پر اسٹور کیا جاتا ہے

تا کہ باوقتِ ضرورت ان انڈوں میں سے لاروا نکالا جاسکے۔ یہ کیڑا چھہ سے آٹھ ہفتے کی زندگی میں اپنی بقا کے لئے اپنے گرد ریشم کا جال بنانے کے علاوہ کچھ نہیں کرتا۔ یہ اسکاانفرادی اور اجتماعی عمل ہے۔

اب اسکے مدِّ مقابل ایک اور کیڑے کو دیکھتے ہیں اور وہ ہے تتلی۔ تتلی بہت خوبصورت حشرات میں شامل ہے۔ اس کا کنگڈم بھی اینیمیلیا ہے اوراس کا بھی کیڑا (انسیکٹ)میں شمار ہوتا ہے۔

اسکا لائف سائیکل بھی بالکل ریشم کے کیڑے کی طرح ہے، یہ انڈے دیتی ہے، انڈے سے لاروا اور پھر لاروے سے ”پیوپا“ اور پھر اسکے
نہایت خوبصورت رنگ برنگے پر نکل جاتے ہیں۔ یہ کیڑا اپنی بقا کی جنگ خود لڑتی ہے، اسے جب محسوس ہوتا ہے کہ موسمی کیفیت ٹھیک نہیں اور شدّت اختیار کر چکی ہے، جس وجہ سے اسکی اور اسکی فیملی کا بچننا مشکل ہے تو یہ کیڑا ہجرت کرتا ہے نا کہ اس ریشم کے کیڑے کی طرح اپنے گرد دھاگہ

بَن کر اس میں ہی دفن ہو جائے۔حشرات کی دنیا میں سب سے بڑی ہجرت تتلیاں ہی کرتی ہیں۔تتلیوں کی ایک خاص نسل(مونارچ) موسم کی شدت کو بھانپ کر نارتھ امریکا اور کینیڈا سے میکسیکو تک ہجرت کرتی ہیں۔ وہ بھی صرف اور صرف اپنی نسل کی بقا کے لئے۔زندگی کی بقا کے لئے

ایک ہی کنگڈم کے دو حشرات مختلف انداز میں برتاؤ کر رہے ہیں، ایک کی زندگی دوسروں کے رحم و کرم پر ہے جب کہ دوسری سپیشی ”اپنابل، بل میں بل، دوسرے کا بل، چولہے میں ڈل “ کی مصداق اپنی جنگ خود لڑ رہی ہے۔ وولٹیئر نے کہا تھا ”ان بے وقوفوں کو آزاد کرانا مشکل ہے،

جو اپنی زنجیروں کی عزت کرتے ہیں “تمہید باندھنے کی وجہ صرف یہ ہے کہ آپ جان سکیں کہ نسلوں اور قوموں کی بقا کتنی ضروری ہے۔ اس وقت دنیا میں ایک سو پچانوے ممالک آباد ہیں

، جسمیں سے ایک سو تیرانوے ممالک یونائیٹد نیشن کے ممبر ہیں جبکہ دو ملک یا ریاستیں ایسی ہیں جو ممبر نہیں ہیں جس میں ایک ویٹکان ہے اور دوسرا فلسطین۔ ویٹکان دنیا کی سب سے چھوٹی آزاد ریاست ہے یہ آزاد ریاست اٹلی کے شہر روم سے گھر ی ہوئی ہے۔

، اسکے مقابلے میں فلسطین جسکا رقبہ چھہ ہزار سکوائر کلو میٹر پر محیط ہے۔ جس میں کم و بیش پچاس لاکھ لوگ آباد ہیں (تھے) جو آج تک اپنی بقا کی جنگ لڑ رہے ہیں۔

اس تقابلی جائزے کو ایک اور زاویے سے دیکھتے ہیں۔ دنیا میں اس وقت ایک سو پچانوے ممالک ہیں جن میں صرف نو ممالک ایسے ہیں جو ”جوہری طاقت“ سے لیس ہیں، ان کے پاس نا کہ صرف نیوکلئیر ہتھیار موجود ہیں بلکہ یہ ممالک ان جوہری ہتھیاروں کوبھرپور طریقے سے استعمال کرنے کی بھی استعداد رکھتے ہیں

۔ یہ ممالک
اپنی طرف اٹھنے والی نگاہ کو چند لمحوں میں عبرت کا نشان بنا سکتے ہیں۔اس تقابلی جائزے کو ایک اور انداز میں پرکھتے ہیں۔ دنیا میں تقریباََ انچاس مسلم اکثریتی ملک آباد ہیں جن میں سے صرف ایک ملک (پاکستان) ہے جو ”جوہری طاقت“ سے مالا مال ہے۔ بقا کی جنگ کے لئے تو جنگ ہونے سے پہلے چاق و چوبند رہنا ضروری ہوتا ہے

۔سورہ الانفال آیت نمبر ساٹھ میں اللہ پاک ارشاد فرماتے ہیں، ترجمہ۔”اور جہاں تک ممکن ہو کافروں کے مقابلے کے لئے قوت اور جنگی گھوڑے تیار رکھو، جن سے تم اللہ کے اور اپنے دشمنوں کو خوف زدو کر سکو۔ جنہیں تم نہیں جانتے اللہ انہیں خوب جان رہا ہے،

جو کچھ بھی اللہ کی راہ میں صرف کرو گے وہ تمہیں پورا پورا دیا جائے گا اور تمہارا حق نہیں مارا جائے گا “پاکستان الحمدواللہ، ان ایک سو پچانوے ممالک میں واحد اسلامی ملک ہے

جو ایٹمی قوت سے لیس ہے۔ مغربی ممالک کی نگاہوں میں پاکستان کانٹے کی طرح کھٹکتا ہے!
ع۔ میں کھٹکتا ہوں دلِ یزداں میں کانٹے کی طرح
اور تو فقط ’اللہ ہو‘ اللہ ہو‘ ’اللہ ہو‘
جسکی نو امیدی سے ہو، سوزِدرونِ کائتات
اسکے حق میں ”تقنطو“ اچھا ہے یا”لا تقنطو“
دیکھتا ہے تو فقط ساحل سے رزمِ خیر و شر
کون طوفاں کے طمانچے کھارہا ہے میں کے تو
میں کھٹکتا ہوں کانٹے کی طرح کی مصداق تمام مغربی ممالک ہمیں انڈیا یا بھارت کے زیرِ تسلّط دینا چاہتا ہے۔ بھارت نے انیس سو چوہتر میں ”ایبسولوٹلی نوٹ“ کہہ کر ایٹمی دھماکہ کر دیا۔ اور پھر جناب ذولفقار علی بھٹو نے اپنے وسیع النظری کا مظاہرہ کیا اور ملک کو ایٹمی قوت بنانے کا فیصلہ کیا۔

اس وقت ذولفقار علی بھٹو ریشم کا کیڑا بن کر اپنی بچی کھچی زندگی گزار سکتے تھے مگر انہوں نے اڑنا بہتر سمجھا اور بقائے نسل اور بقائے قوم کو ترجیح دی۔ پھر ڈاکٹر عبدالقدیر خان (مرحوم) کی زیرِ نگرانی میں کئی پاکستانی رفقاء (سائنسدانوں) نے انتھک محنت کی اور پاکستان میں ایٹمی قوت کی بنیاد رکھی۔
ع۔ اپنے من میں ڈوب کر پا جا سراغِ زندگی
تو اگر میرا نہیں بنتا تو نہ بن، اپنا تو بن
جس دن کا بیج جناب ذولفقار علی بھٹونے بویا تھا، بالآخر وہ دن اٹھائیس مئی انیس سو اٹھانوے کا بڑا دن بن کر آ ہی گیا، جس دن کو روکنے کے لئے مغربی ممالک نے اپنا سب کچھ لگادیا۔ یہاں تک کے امریکی صدر بل کلنٹن نے پانچ عرب ڈالر کی آفر کی کہ تا کہ پاکستان ایٹمی دھماکہ نہ کر سکے۔ اس وقت جناب میاں نواز شریف صاحب نے صحیح معنوں میں ”ایبسولوٹلی نوٹ“ کہا۔ یہ بات امریکی صدر بل کلنٹن نے اپنی کتاب (مائی لائف) میں لکھا ہے۔

وہ لکھتے ہیں کہ انڈیا نے مئی کے وسط میں ایٹمی دھماکے کئے جسکے جواب میں نے میاں نواز شریف صاحب بھی ایٹمی دھماکہ کرنا چاہتے تھے، تو ہماری طرف سے دباؤ تھالیکن انہوں نے دباؤ قبول کرنے سے انکار کر دیا۔

یہ ہوتی ہے بقائے نسل یا بقائے قوم کی جنگ۔ اس بقاء کی جنگ میں نواز شریف صاحب نے قوم کو اٹھائیس مئی انیس سو اٹھانوے کے روز سہ پہر تین بج کر سولہ منٹ پر بلوچستان کے علاقے چاغی کے پہاڑوں میں ایک بٹن دباکر پاکستان کو عالمِ اسلام کی پہلی اور دنیا کی ساتویں ایٹمی طاقت بنا دیا۔

اس دھماکے کے بعد چاغی کے پہاڑوں کا رنگ سرخ ہو گیا، زمیں کانپ اٹھی۔ پاکستانی قوم اب دفاع محازمیں نا قابلِ تسخیر ہو چکی ہے۔ اس کا تمام تر کریڈٹ ذولفقار علی بھٹو، ڈاکٹر عبدالقدیر، میاں نواز شریف اور پھر پوری قوم کو جاتا ہے۔ یہ دن ہمیں یہ یاد دلاتا ہے کہ ہم ایک آزاد اور خود مختار قوم ہیں۔ قوموں کی بقا کے لئے ضروری ہے کہ قومیں جمود کا شکار نہ ہوں، اور بقائے قوم کے لئے قوموں کی مثبت انقلابی فکر انتہائی ضروری ہے ورنہ ہم من حیث القوم ریشم کے کیڑے کی طرح اپنے ہی بنائے ہوئے دھاگے میں قید ہو جائیں گے۔
ع۔ اقبال یہا ں نام نہ لے علمِ خودی کا
موزو نہیں مکتب کے لئے ایسے مقالات
بہتر ہے کہ بیچارے ممولوں کی نظر سے
پوشیدہ رہیں باز کے احوالِ مقامات
آزاد کی اک آن ہے، محکوم کا اک سال
کس درجہ گراں سیر ہیں، محکوم کے اوقات

خبر پر اظہار رائے کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں