دنیا میں کچھ لوگ ایسے بھی ہوتے ہیں جن کی حیات میں بھی ان کے دوست ان کو اچھے کردار اور اعلٰی اخلاق کی وجہ سے خراج تحسین پیش کرتے ہیں۔ ان چند خوش نصیب لوگوں میں اردو اور پوٹھوہاری کے خوبصورت شاعر اور محقق ضیا الحسن ضیا ء بھی تھے۔
انکی یہ خوبی کمال کی تھی کہ کسی دوست نے کسی بھی وقت بلایا فوراً پہنچ جاتے ’نہ‘کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا تھا ان کے دوستوں کا حلقہ بہت وسیع تھا تمام اختلاف کے باوجود ہر مکتبہ فکر کے لوگوں سے اچھے مراسم تھے۔ ان کی زندگی خوبصورت اور اخلاص کے پھولوں سے مہمیز تھی۔ ہر طرف محبت کے پھول نچھاور کرنا
ان کی فطرت میں شامل تھا۔اس عظیم ہستی کا نام ضیا الحسن تھا اور اپنی تخلیقات میں ضیا ء تخلص کرتے تھے ان کا آبائی گاؤں منجوٹھہ اسلام پورہ جبر گوجر خان تھا کیونکہ ان کے والد محکمہ پولیس میں تھے
اور اسلام آباد میں ڈیوٹی دیتے تھے اور ساتھ فیملی بھی تھی اس وجہ سے ولادت 17 جولائی 1971 کو عبدالرحمن کے گھر میلوڈی اسلام آباد میں ہوئی۔ان کی موجودہ رہائش ہاوسنگ سکیم نمبر 1 نزد گورنمنٹ سرور شہید کالج گوجر خان تھی ان کو ادب سے کافی شغف تھا
خاص کر پوٹھوہاری غزل ان کی پسندیدہ صنف تھی۔ انہوں نے معاشرے اور ذاتی مسائل کو لفظوں میں پرونے کی ابتدا 1992 ء کو کی مگر ذریعہ معاش کی فکر میں یہ سلسلہ مسلسل نہ چل سکا۔ دوبارہ انہوں نے اردو اور پوٹھوہاری شاعری کا آغاز 2012 ء سے کیا اوراپنے فن پاروں کی اصلاح معروف سخنور جناب شیراز اختر مغل سے لینے لگے۔ ان کو ادب تخلیق کرنے کے ساتھ ساتھ ادب کے فروغ کا جنون بھی تھا۔
سو اس وجہ سے انہوں نے یکم جنوری 2013 اپنی ادبی تنظیم ضیائے ادب گوجر خان کی بنیاد رکھی اور کئی مشاعرے کروائے اور گوجر خان، راولپنڈی، سوہاوہ، اسلام آباد اور واہ کینٹ کے علاوہ تمام پوٹھوہار کی تمام تنظیموں کے پرو گر ا مو ں میں شرکت کرتے اور اپنے اسلوب اور طرز بیا ن سے داد بھی وصول کرتے۔سلیم اختر لائبر یری اور پوٹھوہار ہوٹل پر لازمی وقت دیتے ان کا زیادہ تر رجحان پوٹھوہاری غزل کی طرف تھا
لیکن شعرا کے کوائف اور کلام کو یکجا کرنے کے لیے بھی بہت سفر کیا کافی مواد اکٹھا کیا اور مزید معلومات اکٹھی کر رہے تھے ان کا مرکز پوٹھوہار اور پوٹھوہاری زبان تھی کافی تحقیقی کام کے باوجود شائع کرنے کا موقع نہ مل سکا ان کاپوٹِھوہاری ادنی مجلہ کے اگست 2013 ء کے شمارے میں تعارف اور منتخب کلام شائع ہوا ہے یہ اپنی شاعری کی کتاب اور تحقیق کی کتاب تیار کر ہی رہے تھے
کہ اچانک 23 جون 2018 کو دل کا دورہ پڑنے کی وجہ سے اپنے خالق حقیقی سے جا ملے۔ان کے جنازہ پر ادبی دوستوں کے علاوہ بھی ہر آنکھ اشک بار تھی۔
ان کی پوٹھوہاری شاعری ہمارے پوٹھوہار کے کلچر اور زبان کی ترجمانی کرتی ہے یہ قدیم اور متروک زبان کا عمدہ استعمال کرتے
ان کا مشاہدہ اور تجربہ کافی تھا جو ان کی شاعری میں دیکھا جا سکتا ہے
ان کے چند اشعار ملاحظہ کریں
کرے کرے ایہہ یھاتی اوہ رنگ دسنی اے
گھنڈے پھہی کے ٹوڑا کھانڑاں پئی گسناں
میں دنیا سوں بخرا رانجھا
مھاڑی سب سوں ہیراے بخری
جنت جاساں ہر کوئی آکھے
موتے کی منہ لاسی کیہڑا
پیری شملہ پینڑ نہیں دتا
خیری واری جپھی کدا
بندے کی ایہہ سوچ ضیا
اندرو اندری کھانڑیں اے
یہ شعر سو فیصد درست ہے کہ ان کی جوانی برقرار تھی یعنی دل جوان تھا اور ہر محفل کی رونق تھے جب کوئی ایسا ہیرا بچھڑ جائے تو پتھر سے پتھر دل کی آنکھوں میں بھی آنسو آجاتے ہیں
وپہھری جوانی لاش ضیا نی تکھی پتھر دل وی رویا ان کی جدائی پورے پوٹھوہار کو اداس کر گئی اب ان جیسا اچھا شاعر اور مخلص دوست ملنا مشکل ہی نہیں نا ممکن ہے