ہیڈ ماسٹر ہائی سکول ہرنال محمد رفیق کی ریٹائرمنٹ

ایک سرکاری ملازم کے لیے سروس مکمل کر کے باعزت طور پر ریٹائر ہو جانا بڑے اعزاز کی بات ہے – خوش قسمت لوگوں کو ہی یہ پر مسرت لمحہ دیکھنا نصیب ہوتا ہے۔ ایسے کتنے سرکاری ملازم ہوں گے جو ریٹائرمنٹ کا خواب آنکھوں میں سجائے منوں مٹی تلے جا سوئے اور ایسے کتنے ہی ہوں گے جو عمر کے اس مرحلے میں پہنچ کر مختلف ہسپتالوں اور گھروں میں بستروں سے جا لگے، کتنے ہی ملازم بدعنوانی اور دو نمبری کا داغ رسوائی ماتھے پر سجائے منہ چھپاتے پھر رہے ہوں گے۔ آپ کئی ایسے گورنمنٹ سرونٹس کو بھی جانتے ہوں گے جو اپنی سروس کا طویل سفر طے کرتے کرتے عین منزل کی دہلیز پر پہنچنے سے زرا پہلے ہی اللہ کو پیارے ہو گئے

۔جناب محمد رفیق صاحب پر پروردگار عالم کا خاص فضل اور احسان عظیم ہے کہ جس نے آپ کو صحت کی قابل رشک حالت میں باعزت طور پر ریٹائرمنٹ کا یہ دن دکھایا۔ آپ کی پوری 35 سالہ سروس ہی بلاشبہ ایک بے داغ، صاف و شفاف، شاندار، جاندار اور یادگار عہد کی ترجمان ہے لیکن یہاں میں ان کا بطور رفیق کار اور ماتحت ہونے کے ناطے جو چھ سالہ عرصہ گزارا ہے اسی کا تذکرہ کروں گا۔ بطور معلم آپ نہایت فرض شناس، وقت کے پابند، مشفق، خوش مزاج اور ہمدرد تو تھے

ہی لیکن جب اپ نے صدر معلم کی ذمہ داریاں سنبھالیں تو اپنی قائدانہ صلاحیتوں کے ایسے جوہر دکھائے کہ ہر کوئی عش عش کر اٹھا۔ آپ میں روایتی سربراہوں جیسی آمرانہ ذہنیت، سخت مزاجی اور سختی نہ ہونے کے برابر تھی۔ آپ نے عملاً یا قولا کبھی ہیڈ ہونے کا رعب جمایا نہ اس سے کوئی ذاتی فائدہ اٹھایا۔ آپ نے یہاں تقریبا سات سال کا عرصہ گزارا اور مجھے یہ کہنے میں کوئی عار نہیں کہ آپ حقیقی معنوں میں میر کارواں تھے۔ بقول شاعر
نگہ بلند، سخن دل نواز، جاں پرسوز
یہی ہے رخت سفر میر کارواں کے لیے
اپنے کارواں کو ساتھ لے کر چلنے کا فن انہیں بخوبی آتا تھا۔ سکول کا ہر چھوٹا بڑا مسئلہ میٹنگ طلب کر کے اساتذہ کے سامنے رکھنے اور ان کی رائے لینے کا رواج یہاں آپ نے ہی ڈالا۔ ہر مسئلے میں اساتذہ سے مشاورت کرتے اور پھراسی کی روشنی میں آخر میں اپنا فیصلہ سناتے۔ آپ نے سربراہ ادارہ کا چارج سنبھالتے ہی آڈٹ کے روایتی خوف کو بالائے طاق رکھتے ہوئے سکول فنڈز کا جس دلیری اور عمدگی سے استعمال کیا وہ کسی سے ڈھکا چھپا نہیں

۔ آپ کی ان گنت خوبیوں میں سے سب سے اہم اور بڑی خوبی وقت کی پابندی اور باقاعدگی تھی۔ سات سال کے عرصے میں جہاں تک مجھے یاد پڑتا ہے کہ آپ شاید ہی کسی دن سکول سے لیٹ ہوئے ہوں۔ اشد ضرورت کے تحت ہی آپ خود سکول سے چھٹی کرتے لیکن اساتذہ کو جب بھی چھٹی کی ضرورت ہوتی فراخ دلی کے ساتھ اس کی منظوری دے دیتے۔ وقت کے پابند ایسے کے عموماً تمام اساتذہ سے پہلے سکول پہنچ جاتے اور اعلی ظرفی کا یہ عالم تھا کہ بعد میں یا چند منٹ لیٹ آنے والوں سے بھی کرسی سے اٹھ کر ہاتھ ملاتے۔ بقول شاعر
جو اعلی ظرف ہوتے ہیں ہمیشہ جھک کہ ملتے ہیں
کہ صراحی سرنگوں ہو کر بھرا کرتی ہے پیمانہ
آپ اعلی ظرف تو تھے ہی عالی نظر بھی کمال کے تھے

۔ ہر ایک استاد کی انفرادی صلاحیتوں اور دلچسپیوں سے واقفیت رکھنے کی وجہ سے اسے ان کے مطابق کام تفویض کرتے۔ آپ نے بطور سربراہ ادارہ جس طرح ادارے کی بہتری اور تعمیر و ترقی میں دلچسپی لی اور اسے وقت دیا اس کی مثال کم ہی ملتی ہے۔ آپ چونکہ آئی ٹی کے ماہر بھی تھے جس کی وجہ سے سکول کی تمام خط و کتابت آئی ٹی ٹیچر ہونے کے باوجود خود اپنے ہاتھوں سے انجام دیتے اور کبھی محکمہ کی طرف سے ڈاک لیٹ پہنچنے کی شکایت نہ ہونے دی۔ بطور سربراہ ادارہ چارج سنبھالتے ہی اپنے دفتر کے دروازے ہر خاص و عام کے لیے وا کر دئیے۔ پبلک کے کسی بھی جائز کام میں کبھی رکاوٹ نہ ڈالی۔ مقرر ایسے کے طلبہ سے خطاب کرتے تو روانء بیان کی ندی بہا دیتے، لکھاری ایسے کہ جو لفظوں کے سمندر میں ڈوب کر الفاظ کے موتی جمع کرتے

اور پھر انہیں خوبصورت انداز میں تحریر کی مالا میں پرو دیتے۔ اردو ادب اور فنون لطیفہ سے بھی آپ کو خاص شغف تھا۔ بچوں کے ساتھ بچے، بڑوں کے ساتھ بڑے اور بزرگوں کے ساتھ بزرگ بن جاتے۔ حس مزاح بھی خوب رکھتے تھے۔ ہنسی مذاق کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہ دیتے اور محفل کو کشت زعفران بنا دیتے۔ سموکر ہونے کے باوجود کبھی کسی نے انہیں دفتر میں یا سکول کے احاطے میں سگریٹ پیتے نہیں دیکھا، جب بھی سگریٹ کی طلب ہوتی اٹھ کر دفتر کے بغلی کمرے میں آتے اور سگریٹ پی لیتے۔ صبح سکول آتے ہوئے اور چھٹی کے بعد واپسی پر گھر جاتے ہوئے اپنی قیمتی گاڑی اور وقت کی پرواہ کیے بغیر اساتذہ کرام کو بخوشی اپنے ساتھ بٹھا لیتے۔آپ حق کے لیے ڈٹ جاتے اور اس کے حصول کے لیے تن من دھن لگا دیتے۔ سالانہ ترقیوں کا کیس ہو یا پروموشن کا مسلہ آپ نے افسر شاہی کے خوف کو بالائے طاق رکھتے ہوئے کورٹ کے زریعے اپنے غصب شدہ حق کو حاصل کیا

۔سربراہان ادارہ کی سب سے بڑی کمزوری خوشامد پسندی اور وسائل کا ناجائز استعمال ہوتی ہے لیکن آپ اس سے بھی مبرا تھے۔ کبھی خوشامد کرنے والے کو قریب نہیں پھٹکنے دیا اور نہ کوئی خصوصی یا ناجائز رعایت کسی کو دی۔ ہر قسم کے ذاتی، نسلی، مسلکی اور سیاسی تعصب سے بالکل پاک تھے اور متعدد مواقع پر ایسی سوچ اور طرز عمل کی حوصلہ شکنی کی۔ آخر میں جناب محمد رفیق صاحب کو سروس کی کامیاب تکمیل پر اپنی اور اپنے سٹاف کی جانب سے مبارکباد پیش کرتا ہوں۔ آپ کی ریٹائرمنٹ کے بعد جو خلا پیدا ہوا ہے اس کو بھرنے میں شاید کچھ ٹائم لگے گا۔ دعا ہے کہ اللہ رب العزت آپ کی ریٹائرمنٹ کی زندگی کو خوشگوار بنائے۔ یہاں ہمارے ساتھ گزرے عرصے کے دوران مجھ سمیت اگر کسی سٹاف ممبر کی جانب سے کوئی حکم عدولی یا کمی کوتاہی ہوئی ہو تو اس کی معذرت قبول فرمائیے۔ اللہ اپ کا اقبال بلند کرے۔
آنکھ سے دور سہی دل سے کہا جائے گا
جانے والے تو ہمیں بہت یاد ائے گا
اس کو رخصت تو کیا تھا مجھے معلوم نہ تھا
سارا گھر لے گیا گھر چھوڑ کے جانے والا
(برکات اسلام ایس ایس ٹی گورنمنٹ ہائی سکول ہرنال)

اپنا تبصرہ بھیجیں