Categories: کالم

ہندکو ادب — پنجابی لہجے کا عکس اور ادبی تسلسل

راولپنڈی کی ادبی فضاؤں میں گزشتہ روز ایک ایسی تقریب منعقد ہوئی جس نے ہندکو (پنجابی) زبان و ادب کی خوشبو کو پھر سے زندہ کر دیا۔ پنجابی ادبی و ثقافتی تنظیم دل دریا پاکستان کے زیرِ اہتمام ایمبلم ہائر سیکنڈری اسکول میں معروف ہندکو پنجابی ادیب سید ماجد شاہ کی چار تازہ کتابوں (بیروا، غ ل، کہانڑیں آخدی اے اور سربن دی چہنگ) کی رونمائی ہوئی۔ یہ محفل دراصل ایک فکری میلے کا سماں پیش کر رہی تھی جہاں ماجھی،ہندکو، پوٹھواری، گھیبی، پہاڑی اور اردو بولنے والے اہلِ قلم ایک ہی چھت تلے جمع ہوئے۔

اس تقریب کی صدارت علی احمد گجراتی نے کی، جو بیماری کے باوجود اپنے رفیقِ کار ڈاکٹر عامر ظہیر بھٹی کے ساتھ ہمہ وقت سرگرم رہے۔ اس موقع پر کرنل ریٹائرڈ سید مرتضیٰ علی شاہ، مسرت شیریں (بانی و چیئرپرسن ثبات)، نزاکت علی مرزا جیسے اہلِ قلم نے بھی بھرپور تعاون کیا۔ علمی گفتگو اور مقالات پیش کرنے والوں میں ڈاکٹر عامر ظہیر بھٹی، ڈاکٹر عبید بازغ امر، فاطمہ عثمان، اظہر سجاد، راشد عباسی، نزاکت علی مرزا، سید جمال زیدی، فرخندہ شمیم، ڈاکٹر مہناز انجم، صفدر حسین وامق، ازور لون اور اکبر نیازی شامل تھے۔

یہ بھی خوشگوار پہلو رہا کہ شعرا و ادبا محض اپنی تخلیقات سنانے نہیں آئے بلکہ دوسروں کی خوشی میں شامل ہونے کے لیے شریک ہوئے۔ یہی جذبہ اصل میں ادب کی روح ہے، “دوسروں کی تخلیقی کاوش کو سراہنا اور زبان کے فروغ کو اپنی ذاتی انا سے مقدم رکھنا”۔

جہاں تک ہندکو کا تعلق ہے، اکثر ماہرین اسے پنجابی کا لہجہ قرار دیتے ہیں۔ اس کی آواز، روزمرہ کے محاورے اور الفاظ کی شیرینی پنجابی سے غیر معمولی قربت رکھتی ہے۔ پنڈی، ہزارہ اور کوہاٹ کی گلیوں میں بولی جانے والی یہ زبان پنجابی کے لہجوں کی وسعت کو اور بڑھا دیتی ہے۔ گویا پنجابی کا یہ ایک ایسا عکس ہے جو اپنی نرم دھار کے ساتھ بہتا ہے ۔ مزید اس علاقائی بولی کی اپنی الگ شناخت اور ادبی تاریخ ہے۔ صوفی روایت میں پیر روکھڑی جیسے بزرگوں نے اسے اپنی روحانی آواز بنایا، لوک داستانوں نے اسے نسل در نسل زندہ رکھا، اور میلوں ٹھیلوں کے گیتوں نے اسے ایک اجتماعی دھڑکن عطا کی۔ یہی وجہ ہے کہ ہندکو کو جہاں پنجابی کا حصہ کہا جا سکتا ہے وہاں اسے الگ بولی کی حیثیت بھی دی جا سکتی ہے۔

معروف ادیب سید ماجد شاہ کی تخلیقات اسی دوہری پہچان کو مزید نمایاں کرتی ہیں۔ بیروا کے کردار ہوں یا کہانڑیں آخدی اے کی کہانیاں، ان میں ہندکو کی روزمرہ بول چال جھلکتی ہے، لیکن ساتھ ہی یہ تحریری ادب کے معیار پر بھی پوری اترتی ہیں۔ یہ گویا ہندکو کو صرف گھریلو بولی سے نکال کر ایک مکمل ادبی زبان کے طور پر پیش کرنے کی کوشش ہے۔

تقریب کے اختتام پر تمام شرکا نے بجا طور پر اس بات پر زور دیا کہ ہندکو کو نہ صرف پنجابی کی وسعت کا حصہ سمجھا جائے بلکہ اس کی اپنی پہچان کو بھی تسلیم کیا جائے۔ یہی رویہ زبانوں کے لیے سب سے زیادہ سودمند ہے کہ انہیں اپنی جڑوں سے کاٹے بغیر نئے پتے اور نئی شاخیں نکالنے کا موقع دیا جائے۔

ہندکو دراصل اس بات کی زندہ مثال ہے کہ وہ ایک وقت میں کسی بڑی زبان کا لہجہ بھی ہو سکتی ہیں اور ساتھ ساتھ اپنی مکمل شناخت بھی رکھ سکتی ہیں۔ یہی ہندکو کی اصل خوبصورتی ہے، اور یہی اس تقریب کی کامیابی کا سب سے بڑا پیغام تھا۔

شہزاد حسین بھٹی

Recent Posts

راولپنڈی میں گالم گلوچ سے منع کرنے پر شہری کو قتل کرنے والے دو ملزمان گرفتار۔

راولپنڈی(اویس الحق سے)وارث خان پولیس کی فوری کارروائی,گالم گلوچ سے منع کرنے پر شہری کو…

2 hours ago

وزیراعظم کی چمن دھماکے میں 6 افراد کے شہید ہونے پر دلی افسوس اور مذمت، ملوث افراد کیخلاف فوری کارروائی کی ہدایت۔

اسلام آباد(اویس الحق سے)وزیراعظم شہباز شریف نے کہا ہے کہ بلوچستان میں شرپسندی پھیلانے والے…

2 hours ago

جہلم پولیس کی شاندار کاروائی جہلم سے اغواء ہونے والی لڑکی کچے کے علاقہ سے بازیاب چار ملزمان گرفتار

تفصیلات کے مطابق جہلم سے ایک لڑکی اغوا ہو گئی جسے آئسکریم بیچنے والے نے…

7 hours ago

جہلم گلشن فیروز میں ڈکیتی کی وارات مزاحمت پر ماں اور بیٹی زخمی

تفصیلات کے مطابق سرکاری سکول کی ٹیچر چھٹی کے بعد اپنی بیٹی کی ہمراہ کار…

7 hours ago

قائداعظم وہ عظیم شخص تھے جن کو نہ خریدا جا سکتا تھا اور نہ ہی جھکایا جا سکتا تھا

پروفیسر محمد حسینگیارہ ستمبر کو بانی پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح کی اٹھہترویں برسی…

7 hours ago