ہندو مسلم خون

قلم اٹھا کر لکھنے کی بہت کوشش کی لیکن پچھلے سات دنوں سے کچھ لکھنے کی ہمت نہیں ہوئی۔رواں سال پاکستان کے صوبے بلوچستان میں15 مارچ کو جعفر ایکسپریس نامی ٹرین کو یرغمال بنانے کا سانحہ اور پھر اس کے بعد 22 اپریل کو انڈیا میں پہلگام کا واقعہ۔۔ دونوں طرف لال رنگ کا خون۔ اب ان دونوں خون میں سے صحیح اور غلط خون میں فرق ڈھونڈ کے بتاؤ؟
انسان جس طرح نا آسودہ اس دنیا میں آتا ہے اسی طرح ناآسودہ دنیا سے رخصت ہو جاتا ہے۔ “اسی آسودگی کی خواہش کی زنجیر میں جکڑی ہوئی مخلوقات، وجودوں کی طلسمی نگری میں منڈلاتی رہتی ہیں”
جس طرح جعفر ایکسپریس میں شہید ہونے والے مسلمانوں کا کوئی قصور نہیں تھا، بالکل اسی طرح پہلگام حادثے میں ہلاک ہونے والے غیر مسلموں کا بھی کوئی قصور نہیں تھا۔ قصور صرف ہماری سوچ کا تھا جس نے مذہب کو ختم کرنے کی کوشش کی جو کہ ایک ناممکن کوشش تھی۔
ان واقعات کے بعد نہ تو ہندو مذہب کی جڑیں کھوکھلی ہوئیں اور نہ ہی اسلام جیسے لازوال مذہب کا بال بیکا ہوا۔
خدا کے لئیے! یہ مت کہو کہ 28 ہندو اور 28 مسلمان مرے ہیں ۔۔۔ یہ کہو کہ 56 انسان مرے ہیں ۔۔۔ اور یہی سب سے بڑا سانحہ ہے۔

ہندو مار کر مسلمانوں نے یہ سمجھا ہو گا کہ ہندو مذہب مر گیا ہے، مگر وہ تو زندہ ہے۔ اور مسلمان کی لاش گرا کر ہندو یہ سمجھ رہا ہوگا کہ آج اس نے اسلام کا قلع قمع کر دیا ہے، وہ لوگ بے وقوف ہیں جو سمجھتے ہیں کہ بندوقوں سے مذاہب کے شکار کئے جا سکتے ہیں ۔۔۔
کوئی بھی مذہب چھرے، چاقو اور گولی سے بھلا کیسے فنا ہو سکتا ہے؟‘‘

آج سعادت حسن منٹو کے افسانہ “سہائے” سے قارئین کے لئیے ہدیہ کر رہا ہوں۔۔
“ممتاز اس روز بہت ہی پُر جوش تھا۔ ہم صرف تین تھے جو اسے جہاز پر چھوڑنے کے لیے آئے تھے۔۔۔ وہ ایک غیر متعین عرصے کے لیے ہم سے جُدا ہو کر پاکستان جا رہا تھا۔۔۔ پاکستان جس کے وجود کے متعلق ہم میں سے کسی کو وہم و گمان بھی نہ تھا۔
ہم تینوں ہندو تھے۔ مغربی پنجاب میں ہمارے رشتہ داروں کو بہت مالی اور جانی نقصان اُٹھانا پڑا تھا، غالباً یہی وجہ تھی کہ ممتاز ہم سے جُدا ہو رہا تھا۔ جگلؔ کو لاہور سے خط ملا کہ فسادات میں اس کا چچا مارا گیا ہے تو اس کو بہت صدمہ ہوا۔ چنانچہ اسی صدمے کے زیر اثر باتوں باتوں میں ایک دن اس نے ممتاز سے کہا ’’میں سوچ رہا ہوں اگر ہمارے محلے میں فساد شروع ہو جائے تو میں کیا کروں گا۔‘‘
ممتازؔ نے اس سے پوچھا۔ ’’کیا کرو گے؟‘‘
جگلؔ نے بڑی سنجیدگی سے جواب دیا۔ ’’میں سوچ رہا ہوں ۔ بہت ممکن ہے میں تمہیں مار ڈالوں ۔‘‘
یہ سن کر ممتاز بالکل خاموش ہو گیا اور اس کی یہ خاموشی تقریباً آٹھ روز تک قائم رہی اور اس وقت ٹوٹی جب اس نے اچانک ہمیں بتایا کہ وہ پونے چار بجے سمندری جہاز سے کراچی جا رہا ہے۔۔ جگلؔ کو اس بات کا شدید احساس تھا کہ ممتاز کی روانگی کا باعث اس کا یہ جملہ ہے۔

ممتاز کی نظریں بمبئی کی سڑکوں پر تھی جہاں بے حد بھیڑ تھی۔ ہزار ہا ریفیوجی جا رہے تھے۔ خوشحال بہت کم اور بدحال بہت زیادہ تھے۔۔۔ بے پناہ ہجوم تھا۔ لیکن مجھے ایسا معلوم ہوتا تھا کہ اکیلا ممتاز جا رہا ہے۔
اس وقت جگل نے دفعتاً ایک ہی جرعے میں نہایت ہی بھونڈے انداز میں ممتاز سے کہا ’’مجھے معاف کر دینا ممتاز۔۔۔ میرا خیال ہے میں نے اس روز تمہیں دُکھ پہنچایا تھا۔‘‘
’ لیکن مجھے افسوس ہے!‘‘
’’تم مجھے مار ڈالتے تو تمہیں زیادہ افسوس ہوتا۔‘‘ ممتاز نے بڑے فلسفیانہ انداز میں کہا۔ لیکن صرف اس صورت میں اگر تم نے غور کیا ہوتا کہ تم نے ممتاز کو۔۔۔ ایک مسلمان کو۔۔۔ ایک دوست کو نہیں بلکہ انسان کو مارا ہے۔۔۔ وہ اگر حرامزادہ تھا تو تم نے اس کی حرامزدگی کو نہیں بلکہ خود اس کو مارا ڈالا ہے۔۔۔ وہ اگر مسلمان تھا تو تم نے اس کی مسلمانی کو نہیں اس کی ہستی کو ختم کیا ہے۔۔۔ اگر اس کی لاش مسلمانوں کے ہاتھ آتی تو قبرستان میں ایک قبر کا اضافہ ہو جاتا، لیکن دنیا میں ایک انسان کم ہو جاتا۔‘‘
’’ہو سکتا ہے میرے ہم مذہب مجھے شہید کہتے، لیکن خدا کی قسم اگر ممکن ہوتا تو میں قبر پھاڑ کر چلاّنا شروع کر دیتا۔ مجھے شہادت کا یہ رتبہ قبول نہیں ۔۔۔ مجھے یہ ڈگری نہیں چاہیے۔ جس کا امتحان میں نے دیا ہی نہیں ۔۔۔۔۔ بتاؤ تم اور میں کس تمغے کے مُستحق ہیں ؟
ممتاز نے کہا ’’مجھے حیرت ہے کہ وہ کیسا انسان تھا اور زیادہ حیرت اس بات کی ہے کہ وہ عرف عام میں ایک بھڑوا تھا۔۔۔عورتوں کا دلاّل۔۔۔’’اس کا پورا نام مجھے یاد نہیں ۔۔۔ کچھ سہائے تھا۔۔۔ بنارس کا رہنے والا بہت ہی صفائی پسند۔ اس نے مجھے یہ بھی بتا دیا تھا کہ وہ تین برس کے عرصے میں بیس ہزار روپے کما چکا ہے۔۔۔ ہر دس میں سے ڈھائی کمیشن کے لے لے کر۔۔۔ اسے صرف دس ہزار اور بنانے تھے۔۔۔معلوم نہیں صرف دس ہزار اور کیوں ، زیادہ کیوں نہیں ۔۔۔اس نے مجھ سے کہا تھا کہ تیس ہزار روپے پورے کر کے وہ واپس بنارس چلا جائے گا اور بزّازی کی دکان کھولے گا۔۔۔میں یہ بھی نہیں کہہ سکتا کہ وہ صرف بزّازی ہی کی دکان کھولنے کا آرزو مند کیوں تھا۔‘‘
میں یہاں تک سُن چکا تو میرے منہ سے نکلا ’’عجیب و غریب آدمی تھا۔‘‘
ممتاز نے اپنی گفتگو جاری رکھی ’’ میرا خیال تھا کہ وہ سرتاپا بناوٹ ہے۔۔۔ ایک بہت بڑا فراڈ ہے۔ کون یقین کر سکتا ہے کہ وہ ان تمام لڑکیوں کو جو اس کے دھندے میں شریک تھیں ۔ اپنی بیٹیاں سمجھتا تھا۔ یہ بھی اس وقت میرے لیے بعید از فہم تھا کہ اس نے ہر لڑکی کے نام پر پوسٹ آفس میں سیونگ اکاؤنٹ کھول رکھا تھا اور ہر مہینے کُل آمدنی وہاں جمع کراتا تھا۔۔۔ اس کی ہر بات مجھے ضرورت سے زیادہ بناوٹی معلوم ہوتی تھی۔۔۔ ایک دن میں اس کے یہاں گیا تو اس نے مجھ سے کہا کہ امینہ اور سکینہ دونوں چھٹی پر ہیں ۔۔۔ میں ہر ہفتے ان دونوں کو چھٹی دے دیتا ہوں تاکہ باہر جا کر کسی ہوٹل میں ماس وغیرہ کھا سکیں ۔۔۔ یہاں تو آپ گنتی جانتے ہیں سب ویشنو ہیں ‘‘ ۔۔۔ میں یہ سن کر دل ہی دل میں مسکرایا کہ مجھے بنا رہا ہے۔۔۔ ایک دن اس نے مجھے بتایا کہ احمد آباد کی اس ہندو لڑکی نے جس کی شادی اس نے ایک مسلمان گاہک سے کرا دی تھی، لاہور سے خط لکھا کہ داتا صاحب کے دربار میں اس نے ایک منت مانی تھی جو پوری ہوئی۔ اب اس نے سہائے کے لیے منت مانی ہے کہ جلدی جلدی اس کے تیس ہزار روپے پورے ہوں اور وہ بنارس جا کر بزّازی کی دکان کھول سکے یہ سن کر میں ہنس پڑا۔ میں نے سوچا چونکہ میں مسلمان ہوں اس لیے مجھے خوش کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔‘‘

’’ ۔۔۔اس کے قول و فعل میں کوئی بُعد نہیں تھا۔۔۔ ہو سکتا ہے اس میں کوئی خامی ہو، بہت ممکن ہے اس سے اپنی زندگی میں کئی لغزشیں سرزد ہوئی ہوں ۔۔۔ مگر وہ ایک بہت ہی عمدہ انسان تھا۔‘‘
جگل نے سوال کیا۔ ’’یہ تمہیں کیسے معلوم ہوا؟‘‘
’’اس کی موت پر‘‘ یہ کہہ کر ممتاز کچھ عرصے کے لیے خاموش ہو گیا۔ تھوڑی دیر کے بعد اس نے ادھر دیکھنا شروع کیا جہاں آسمان اور سمندر ایک دھندلی سی آغوش میں سمٹے ہوئے تھے۔’’ فسادات شروع ہو چکے تھے۔۔۔ میں علی الصبح اُٹھ کر بھنڈی بازار سے گزر رہا تھا۔۔۔ کرفیو کے باعث بازار میں آمدو رفت بہت ہی کم تھی۔ ٹریم بھی نہیں چل رہی تھی۔ ٹیکسی کی تلاش میں چلتے چلتے جب میں جے جے ہسپتال کے پاس پہنچا تو فٹ پاتھ پر ایک آدمی کو میں نے بڑے سے ٹوکرے کے پاس گٹھڑی سی بنے ہوئے دیکھا۔ میں نے سوچا کہ کوئی پاٹی والا (مزدور) سو رہا ہے۔۔۔ لیکن جب میں نے پتھر کے ٹکڑوں پر خون کے لوتھڑے دیکھے تو رُک گیا۔۔۔ واردات قتل کی تھی، میں نے سوچا اپنا راستہ لوں ، مگر لاش میں حرکت پیدا ہوئی۔۔۔ میں پھر رُک گیا۔ آس پاس کوئی نہ تھا۔ میں نے جھک کر اس کی طرف دیکھا۔ مجھے سہائے کا جانا پہچانا چہرہ نظر آیا، مگر خون کے دھبوں سے بھرا ہوا۔ میں اس کے پاس فٹ پاتھ پر بیٹھ گیا اور غور سے دیکھا۔۔۔ اس کی ٹول کی سفید قمیض جو ہمیشہ بے داغ ہوا کرتی تھی لہو سے لتھڑی ہوئی تھی۔۔۔ زخم شاید پسلیوں کے پاس تھا۔ اس نے ہولے ہولے کراہنا شروع کیا تو میں نے احتیاط سے اس کا کندھا پکڑ کر ہلایا جیسے کسی سوتے کو جگایا جاتا ہے ایک دو بار میں نے اس کو نامکمل نام سے بھی پکارا۔۔۔ میں اُٹھ کر جانے ہی والا تھا کہ اس نے اپنی آنکھیں کھولیں ۔۔۔ دیر تک وہ ان ادھ کھلی آنکھوں سے ٹکٹکی باندھے مجھے دیکھتا رہا۔۔۔ پھر اک دم اس کے سارے بند میں تشنج کی سی کیفیت پیدا ہوئی اور اس نے مجھے پہچان کر کہا۔ ’’آپ؟۔۔۔ آپ؟‘‘
میں نے اس سے تلے اوپر بہت سی باتیں پوچھنا شروع کر دیں ۔ وہ کیسے ادھر آیا۔ کس نے اس کو زخمی کیا۔ کب سے وہ فٹ پاتھ پر پڑا ہے۔۔۔ سامنے ہسپتال ہے۔ کیا میں وہاں اطلاع دوں ؟
اس میں بولنے کی طاقت نہیں تھی۔ جب میں نے سارے سوال کر ڈالے تو کراہتے ہوئے اس نے بڑی مشکل سے یہ الفاظ کہے:
’’میرے دن پورے ہو چکے تھے۔۔۔ بھگوان کو یہی منظور تھا!‘‘
بھگوان کو جانے کیا منظور تھا لیکن مجھے یہ منظور نہیں تھا کہ میں مسلمان ہو کر مسلمانوں کے علاقے میں ایک آدمی کو جس کے متعلق میں جانتا تھا کہ ہندو ہے۔ اس احساس کے ساتھ مرتے دیکھوں کہ اس کو مارنے والا مسلمان تھا اور آخری وقت میں اس کی موت کے سرہانے جو آدمی کھڑا تھا وہ بھی مسلمان تھا۔۔۔ میں ڈرپوک تو نہیں لیکن اس وقت میری حالت ڈرپوکوں سے بدتر تھی۔ ایک طرف یہ خوف دامن گیر تھا، ممکن ہے میں ہی پکڑا جاؤں ، دوسری طرف یہ ڈر تھا کہ پکڑا گیا تو پوچھ گچھ کے لیے دھر لیا جاؤں گا۔۔۔ ایک بار یہ خیال آیا، اگر میں اسے ہسپتال لے گیا تو کیا پتا ہے اپنا بدلہ لینے کی خاطر مجھے پھنسا دے۔ سوچے، مرنا تو ہے ہی، کیوں نہ اسے ساتھ لے کر مروں ۔۔۔ اس قسم کی باتیں سوچ کر میں چلنے ہی والا تھا۔۔۔ بلکہ یوں کہئے کہ بھاگنے والا تھا کہ سہائے نے مجھے پکارا۔۔۔ میں ٹھہر گیا۔۔۔ نہ ٹھہرنے کے ارادے کے باوجود میرے قدم رُک گئے۔۔۔ میں نے اس کی طرف اس انداز سے دیکھا، گویا اس سے کہہ رہا ہوں جلدی کرو میاں مجھے جانا ہے۔۔۔ اس نے درد کی تکلیف سے دوہرا ہوتے ہوئے بڑی مشکلوں سے اپنی قمیض کے بٹن کھولے اور اندر ہاتھ ڈالا مگر جب کچھ اور کرنے کی اس کی ہمت نہ آرہی تو مجھ سے کہا ’’۔۔۔نیچے بنڈی ہے۔۔۔ ادھر کی جیب میں کچھ زیور اور بارہ سو روپے ہیں ۔۔۔ یہ۔۔۔ سلطانہ کا مال ہے۔۔۔ میں نے ۔۔۔ میں نے ایک دوست کے پاس رکھا ہوا تھا۔۔۔۔۔۔ آج اسے ۔۔۔ آج اسے بھیجنے والا تھا۔۔۔ کیونکہ آپ جانتے ہیں خطرہ بہت بڑھ گیا ہے۔۔۔ آپ اسے دے دیجئے گا اور کہئے گا فوراً چلی جائے۔۔۔ لیکن ۔۔۔ اپنا خیال رکھیے گا!‘‘
ممتاز خاموش ہو گیا، لیکن مجھے ایسا محسوس ہوا کہ اس کی آواز، سہائے کی آواز میں جو جے جے ہسپتال کے سامنے فٹ پاتھ پر اُبھری تھی، دور ادھر جہاں آسمان اور سمندر ایک دھندلی سی آغوش میں مدغم تھے، حل ہو رہی ہے۔
جہاز نے وسل دیا تو ممتاز نے کہا۔ ’’میں سلطانہ سے ملا۔۔۔۔۔۔ اس کو زیور اور روپیہ دیا تو اس کی آنکھوں میں آنسو آ گئے۔‘‘ اگر تو جعفر ایکسپریس حادثہ ہندوؤں کی سازش اور پہلگام سانحہ مسلمانوں کی سازش ہے تو یقیناً سیکورٹی لیپس کہا جائے گا اور اگر یہ حادثہ دونوں ممالک نے اپنے سیاسی، علاقائی اور مذہبی فائدہ اٹھانے کے لئیے خود کیا ہو تو؟۔۔۔۔۔۔ الحفیظ الامان۔ (جمیل احمد)

اپنا تبصرہ بھیجیں