ہندوستان اور اسلام

ہندوستان کے جنوب مغرب میں مالابار کا علاقہ اپنی طبعی اور جغرافیائی خصوصیات کے باعث ایک اہم مقام کاحامل ہے مالابار اور اس سے ملحق دوسرے علاقوں کو اب ”کیرالا“ کہا جاتا ہے یہ علاقہ اب چھ ضلعوں پر مشتمل ہے یہاں پر سوائے ٹیپو سلطان کے کسی بھی مسلمان حکمران نے حکومت نہیں کی یہاں کی سرزمین میں مصالحہ جات‘ ناریل‘ لونگ‘ چائے‘کافی‘ جائفل‘ کالی مرچ اور الائچی وغیرہ پیدا ہوتی ہیں اور یہ قیمتی چیزیں ہیں یہ سارا علاقہ ساحل سمندر کے ساتھ واقع ہے یہاں سے پورے عرب میں تجارت ہوتی تھی اسی بنا پر اس علاقے کے لوگوں کے عرب تاجروں کے ساتھ کئی صدیوں سے تعلقات ہیں اپنے تجارتی مفادات کو مدنظر رکھتے ہوئے کئی عرب تاجروں نے تو شادیاں بھی کر رکھی تھیں پورے ہندوستان کی طرح یہ علاقہ بھی ہندو مت کا گڑھ تھا جب حضور نبی رحمت ﷺ نے اپنی نبوت کا اعلان کیا تو حضور رحمت عالم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی نبوت و رسالت کی خوشبو چار سوئے عالم پھیلنا شروع ہوئی تو اس دلفریب و دلکش خوشبو کے چھونکے ان تاجروں کے ذریعے ہندوستان بھی پہنچ گئے آقا ﷺ کی جانب سے دعوت ِاسلام دئیے جانے کے بعد دُنیا کے جو خطّے سب سے پہلے لبیک کہہ کر اسلام کے پیغام کو قبول کر کے اُس کی ترویج میں پیش پیش رہے اُن میں ہندوستان بھی شامل ہے یہاں پر اسلام ان تاجروں کے ذریعے پہنچا جو سالہا سال سے یہاں پر تجارت کی غرض سے آرہے تھی یہاں کے کچھ معروضی حالات کے باعث دوسرے علاقوں کی نسبت اشاعت اسلام نہایت سست رفتار رہی مالابار کی ایک ریاست ڈنگالور کے بادشاہ پیرومل نے معجزۃ شق القمر دیکھا تو حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے حالات کے بارے میں معلومات اکٹھی کیں جب مدنی تاجدار صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اوصاف حمیدہ سے آشنائی ہوئی تو پھر بعد مکان اذیت بن گیا اس کا ہر ہر پل اسے تکلیف دیتا اب بس اک سوہنی من موہنی صورت ہی اس کی سوچ وفکر میں بسی ہوئی تھی اور جب ضبط کے بندھن ٹوٹ گے تو تحت حکومت اپنے بیٹے کے حوالے کر کے راہی مکہ ہوا آقا علیہ الصلاہ والسلام کے قدموں میں سر رکھ کر سب سے بڑے مرتبہ صحابیت پر فائز ہو گیا اور پھر کبھی اپنی ریاست میں واپس نہ آیا دوسری روایت کے مطابق حضور رحمت اللعالمین صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے واپسی کا حکم فرمایا دوران سفر اس دنیا سے رخصت ہوگیا آج بھی ان علاقوں میں مسلمانوں کی تعداد تقریباً 23 فیصد ہے یہ ہندوستان کی ایک بندر گاہ کے احوال ہیں دوسری بندر گاہ اس وقت کی دیبل اور موجودہ کراچی تھی جو خطہ سندھ کا دل ہے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سندھ کے ساتھ ایک خاص رغبت اور محبت تھی اس ضمن میں متعدد احادیث بھی مروی ہیں۔ تاریخِ اسلام کی مشہور کتاب ”جمع الجوامع“ جو علامہ سیوطیؒ کی تصنیف ہے علامہ سیوطی لکھتے ہیں کہ سرزمینِ سندھ وہ عظیم خطہ ہے جس کی طرف حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنی انگشت مبارک سے اشارہ کر کے فرمایا کہ ”مجھے سندھ سے خوشبو آتی ہوئی محسوس ہو رہی ہے“ ایک اور روایت کے مطابق رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنی جانب سے ایک خط صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم کے ہاتھوں سندھ کے باشندوں کی طرف ارسال کیا صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کی وہ جماعت اُس وقت سندھ میں نیرون کوٹ (موجودہ حیدرآباد) میں اسلام کا پیغام لے کر پہنچی تھی کہتے ہیں تقریباً 25 صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین یہاں تشریف لائے کئی صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کی قبور آج بھی مرجع خلائق ہیں صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین
کی تعلیمات سے متاثر ہو کر یہاں کے کچھ باشندے جو پہلے ہی ان جھوٹے مکرو فریب پر مبنی ادیان باطلہ سے تنگ تھے اور وحدانیت کے متلاشی تھے ان متلاشیان حق نے نبی آخر الزماں صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی دعوت حق پر لبیک کہا اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ کے قدموں میں جا کر پناہ لی اور مرتبہ صحابیت پر فائز ہوئے اور واپس آ کر دعوت دین کا بیڑا اٹھایا اس طرح اسلام برصغیر میں پہنچا لیکن اس کے پھیلاؤ کی رفتار نہایت سست تھی خلفائے راشدین کے ادوار میں بھی یہاں پر کچھ مہمات ہوئیں لیکن ناموافق موسمی حالات کی بنا پر زیادہ نقصان سے بچنے کے لیے ترک کر دی گئیں بعد ازاں محمد بن قاسم کے حملہ سندھ کے بعد اشاعت اسلام میں تیزی واقع ہوئی اور اسلام انتہائی سرعت کے ساتھ قبول عام پاتا گیا محمد بن قاسم کو بھی مہم کو ادھورا چھوڑ کر واپس جانا پڑا لیکن اسی طرح بعد کے حملہ آور بھی آتے کچھ علاقے فتح کرتے اور واپس چلے ان حملہ آوروں میں سلطان محمود غزنوی بھی شامل تھا کسی نے بھی مستقل حکومت قائم کرنے کی کوشش نہیں کی یہ سلسلہ تیرہویں صدی تک چلتا رہا لیکن ان حملہ آوروں کا ایک فائدہ یہ ہوا کہ ان کے ساتھ جو اللہ تعالیٰ کے نیک و پارسا لوگ آتے وہ ان کے حالات دیکھ کر واپس نہ جاتے یہیں رہ کر مقامی باشندوں کو اپنے اخلاق و کردار سے دعوت دین دیتے 1192 میں سلطان شہاب الدین غوری نے دہلی و اجمیر فتح کیا تو اپنے غلام قطب الدین ایبک کو یہاں کا گورنر مقرر کیا بعد ازاں کو بنگال بہار گجرات وغیرہ بہت سارے علاقے فتح کر کے واپس جارہا تھا کہ راستے میں 15مارچ 1206کوگھکڑوں نے حملہ کر کے شہید کر دیا (یہ وہی شہاب الدین غوری ہے جس کے نام پر ہمارا غوری میزائل ہے) ماہ جون میں قطب الدین ایبک نے پہلی بار باضابط حکومت کا اعلان کر دیا جس کو سلطنت دہلی کے نام سے جانا جاتا ہے برصغیر پاک وہند میں یہ پہلی مسلمانوں کی باقاعدہ مرکزی حکومت تھی جس سے یہاں کے مسلمانوں کو تقویت ملی 1206 سے لے کر 1857 تک مسلمانوں نے بلا شرکت غیرے یہاں حکومت کی ہے ہندوستان میں اسلام صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین عرب تاجروں اور صوفیاء کرام کے طفیل پھیلا

اپنا تبصرہ بھیجیں