ہم وہیں کھڑے ہیں

1969 کو تسخیر مہتاب ہوا اس کے بعد انسان کا اگلا پڑاؤ مریخ ٹھہرا خلائی تحقیقاتی اداروں نے اس پر کام کرنا شروع کر دیا وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ کامیابی ملتی رہی لیکن اصل کامیابی ناسا کو 17 فروری 2021 کو اس وقت ملی جب وہ ایک پرسیورینس روور نامی روبوٹ مریخ کی سطح پر اتارنے میں کامیاب ہو گئے یہ ایک جیزیرو نامی گڑھے میں اتارا گیا جس کے بارے میں خیال ظاہر کیا جا رہا ہے کہ ہزاروں سال پہلے یہ ایک بہت بڑی جھیل تھی یہ روبوٹ وہاں پر تقریباً دو سال تک رہے گا ڈرلنگ کرے گا اور وہاں گہرائیوں سے نمونے اکٹھے کرے گا جس سے اندازہ لگایا جائے گا کہ وہاں پر زندگی کے آثار پائے جاتے ہیں یا نہیں قدیم دور میں وہاں پر زندگی کے آثار موجود تھے یا نہیں اور یہ کہ انسان کے رہنے کے لیے وہاں پر آکسیجن پیدا کی جا سکتی ہے یا نہیں تاکہ مستقبل قریب میں وہاں پر انسانوں کو بسایاجا سکے یہ تصویر کا ایک رخ ہے اب دوسرا رخ بھی دیکھیں چند روز قبل بہاولپور میں میاں بیوی نے غربت و افلاس کی بنا پر فاقوں پر مجبور تھے چھوٹے بچوں کو کھلانے پلانے کے لیے کچھ بھی نہیں تھا ستم بالائے ستم اوپر سے 17500 روپے کا بجلی بل بھی ان کو موصول ہو گیا زرا سوچئے جس کے گھر میں کھانے کے لیے ایک نوالہ تک نہیں وہ بجلی کتنی اور کس مقصد کے لیے استعمال کرتا ہو گا آخر کار میاں بیوی نے بچوں سمیت خودکشی کر لی تاریخی اوراق پر نظر دوڑائیں تو معلوم ہوگا کہ یہ ملک دراصل غریبوں مجبوروں مسکینوں بے سہاروں یتیموں کے لیے ہی بنایا گیا تھا تاکہ یہ آسودہ حال زندگی بسر کر سکیں ورنہ امراء کے ٹھاٹھ باٹھ تو اس وقت بھی شاہانہ ہی تھے دن رات ان کے آسودہ حالی میں ہی بسر ہوتے تھے قانون اس وقت بھی ان کے گھر کی لونڈی تھا اور آج بھی ہے اگر کسی کے پاس کچھ نہیں تھا تو غریب مسکین مزدور دہاڑی دار پسے ہوے طبقہ کے پاس کچھ نہیں تھا پاکستان بننے کے بعد ابتدائی سال تو اس نوزائیدہ ریاست کو اپنے پاؤں پر کھڑا کرنے میں گزر گئے بعد ازاں ہم نے اس ملک کو لوٹنے کھوکھلا کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی ذرا سوچئے ہم سے دو سال بعد آزاد ہونے والا ہمارا پڑوسی ملک چائنا جس کی آبادی بھی ایک ارب چالیس کروڑ کے لگ بھگ ہے وہ اس وقت دنیا پر حکمرانی کر رہا ہے اور مستقبل کی منصوبہ بندی کے ساتھ آگے بڑھ رہا ہے ہمارے ملک میں اربوں ڈالر کی سرمایہ کاری کی اور اب ایران میں ہم سے چار پانچ گنا زیادہ سرمایہ کاری کر رہا ہے اسی طرح اسرائیل کو بھی دیکھ لیں کہ اس کے پاس کیا کچھ نہیں ہے جنوبی کوریا بھی ہم سے بعد میں آزاد ہوا اس کو اپنے پاؤں پر کھڑا کرنے کے لیے امداد کی اپیل کی گئی تو زیادہ امداد فراہم کرنے والے ممالک میں ہمارا شمار ہوتا تھا اس وقت ہمارے لوگ وہاں پر ملازمت کے لیے جا رہے ہیں شاید ہم نے جہاں سے ابتدا کی تھی چند قدم ہی اٹھا پائے ہیں پھر ہمارے پاؤں شل ہو گے ہمیں آگے بڑھنے کی ہمت ہی نہیں رہی اللہ تعالی نے ہمارے ملک کو چاروں موسم عطا کئے ہیں اس کو بلند و بالا پہاڑوں سے زینت بخشی ہے‘ معدنیات‘ تیز بہتے دریاوں سر سبز و شاداب زرخیز وادیوں کی بے بہا دولت سے نوازا ہے ہمارا ملک بنیادی طور پر ایک زرعی ملک ہے اللہ تعالیٰ نے ہمارے ملک کی وادیوں کی زمینوں کو وہ قوت طاقت استعداد زرخیزی بخشی ہے کہ دنیا و جہاں کی ہر فصل کو یہاں کاشت کیا جا سکتا ہے حال ہی میں چکوال کے اردگرد زیتون کی کامیاب ترین کاشت کاری کا تجربہ کیا گیا ہم نے اس کا پہلے تصور بھی نہیں کیا تھا تقریباً 1980 تک ہمارا ملک گندم چاول کپاس اور سبزیوں میں نہ صرف خود کفیل تھے بلکہ بیرون ملک بھیج کر کثیر زرمبادلہ بھی کماتے تھے اس کے ساتھ ساتھ دنیا میں ہمارے کپڑے کی بہت مانگ تھی لیکن آج ہماری حالت یہ ہو چکی ہے کہ بازار میں جائیں تو دوکان دار بڑے فخر سے کہتا ہے کہ یہ چائنہ کا کپڑا ہے اور بہت ہی اعلیٰ معیار کا ہے زراعی پیداوار ہمارا اتنی نیچے جا چکی ہے کہ پیاز،ٹماٹر، آلو،چینی حتیٰ کہ دھاگہ بھی انڈیا سے منگوانے لگے تھے لیکن ہمیں اعلان کے بعد یاد آیا کہ وہ تو ہمارے کشمیری بھائیوں کا قاتل ہے پھر رک گے کہنے کا مطلب ہے کہ ہم باہر سے منگوا رہے ہیں ہم اتنے سمجھدارہیں کہ موسمی تبدیلیوں سے بچنے کے لئے ادھر بلین ٹری کا منصوبہ شروع کر رہے ہیں اور ادھر ملکی ضرورت اور کثیر زرمبادلہ کا ذریعہ اور ملک کی پہچان ملتان میں کثیر رقبے پر محیط آم کے درختوں کا قتل عام کر دیا صرف اس وجہ سے کہ ہم نے وہاں پر اپنے محلات تعمیر کرنے ہیں حالاں کہ دنیا کثیر المنزلہ عمارات اپارٹمنٹس کی طرف جارہی ہے تاکہ زراعت و دیگر مقاصد کے لیے زمین کو بچایا جا سکے مہنگائی و بیروزگاری بڑھتی جا رہی ہے لا قانونیت عام ہو چکی ہے امیر اربوں کے ڈاکے پربھی ضمانت قبل از گرفتاری اور بیرون ملک علاج کے لیے اہل اور والدین کی تیمارداری کے لیے سزا کی معطلی اور بعد ازاں اجازت ہی اجازت غریب معمولی جرم پر بھی جیل کے اندر اور موت کے بعد بھی ہتھکڑی نہ کھلنے کا حقدار۔ دنیا آسمان کو چھو رہی ہے اور اپنی الگ دنیا بسانے کا سوچ رہی ہے اور ہم ابھی لنگر خانے اور مسافر خانے بنا رہے ہیں اور ہمارا غریب غربت کے باعث خود کشی کر رہا ہے اور نہ ہی ہم جدید تقاضوں کے مطابق امیر و غریب کو یکساں نظام تعلیم دے سکے ہیں ہم آگے بڑھنے کے بجائے پیچھے جارہے ہیں اور کسی معجزے کے انتظار میں وہیں کھڑے ہیں جہاں سے چلے تھے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں