ہم جشن آزاد ی منانے کے قابل ہیں؟پروفیسر محمد حسین

چودہ اگست 1947ء کو پاکستان دو قومی نظریے کے بنیاد پر قائم ہوا اس نظریے کے تحت ہندو اور مسلمانوں کو ہر لحاظ سے دو الگ الگ قومیں قرار دیا گیا پاکستان کرہ ارض پر وہ واحد ملک ہے جس کی بنیاد ایک نظریے پر رکھی کی اور وقت کی سفاک طاقتوں سے

اس نظریے کا منوانے کے لیے مسلمانان ہند نے ان گنت قربانیاں دے کر قائد اعظم محمد علی جناحؒ اور علامہ محمد اقبالؒ نے اپنے پہلے خطبے میں فرمایا’’میں ایسا پاکستان دیکھنا چاہتا ہوں

جو آزاد انسانوں کا ملک ہو اسلامی اقدار کا تحفظ ہو جو اسلامی ثقافت کا علمبردار ہو جہاں معاشرتی عدل و انصاف فطری بنیادوں پر قائم ہو جس میں لوگوں کی جان و مال محفوظ ہو اقلیتوں کے حقوق محفوظ ہو رشوت ستانی ،بد عنوانی اقربا پروری نسلی و علاقائی تعصب کا وجود نہ ہو‘‘اگر ہم قائد اعظم کے پاکستان میں جائیں تو قائداعظم کے پاکستان کا وزیر ہر پہر سوٹ نہیں بدلتا تھا سرکاری خرچے پر عزیزوں دوستوں اور اپنے چہیتوں کو حج و عمرہ اور فری دوروں پر نہیں لے جاتا تھا سرکاری دورے بہت کم افسران کرتے تھے

قائد اعظم نے اپنے پاکستان میں سربراہ مملکت ہونے کے باوجودکوئی بیرونی دورہ نہیں کیا قائداعظم کے پاکستان میں ان کی گاڑی کے آگے صرف دو موٹر سائیکل ہوا کرتے تھے اور کبھی کبھی وہ بھی نہیں مگر افسوس آج کے پاکستان میں مہنگی گاڑیوں کا ان گنت قافلہ بھی ہماری آنکھیں کھولنے کے لیے کافی نہیں قائداعظم کے پاکستان میں اقربا پروری بالکل بھی نہ تھی مگر آج کے پاکستان میں ایک ہی خاندان کے چالیس چالیس لوگ حکومتی نظام چلا رہے ہیں

جب کہ ان کے پاس حکومتی عہدے بھی نہیں قائداعظم کے پاکستان میں نسلی و گروہی اور مذہبی تعصبات نہیں تھے مگر موجودہ دور میں ہم لسانی تعصب کی بنیاد پر قائد اعظم کے پاکستان کا آدھا حصہ اپنے سے جدا کرچکے ہیں اس ملک کی آزادی کے لیے لاکھوں مسلمانوں نے اپنی جانوں کے نذرانے پیش کیے والدین نے اپنے لخت جگر اور معصوم بچوں کو کھویا لاتعداد عفت مآب ماؤں ،بہنوں اور بیٹیوں نے اپنی عزتوں کی قربانی دی و ہ تباہی کا ایک ہولنا ک منظر تھا گویا ہر طرف قیامت صغری برپا تھی اس ملک کی آزادی کے بدلے ہمارے اجداد نے کتنے ظلم سہے اور کیا قیمت ادا کی ان سے تاریخ بھری پڑی ہے اس وقت کا ایک ایسا وقعہ سامنے آیا ہے جس سے مشکلات و مصائب کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے پندرہ اگست 1947بھارت کے یوم آزادی والے دن سکھوں کے ایک ہجوم نے مسلمان عورتوں کو برہنہ کر کے جلوس نکالا جو گلی کوچوں میں گھومتا رہا آخر میں جلوس میں موجود تما م عورتوں ذبح کیا گیا

اور باقی کو زندہ جلا دیا گیاان قربانیون کے نتیجے کے طور پر پاکستان معرض وجود مین آیا اور ملک پاکستان میں چودہ اگست ہر سال یوم تشکر کے طور پر منانے کا فیصلہ کیا گیاآزاد و خودمختا ر قومیں اپنی آزادی کا جشن بھرپور انداز مین منایا کرتی ہیںٓآزادی کا جشن منانا زندہ قوموں کا شیوہ ہے پاکستانیوں سے یہ سوال کرنے کا حق بنتا ہے کہ کیا جن مقاصد کے لیے ہم نے قربانیاں دیں تھیں آج وہ مقاصد پورے ہو گئے ؟ہم ایک آزاد قوم کہلانے کے حقدار نہیںْ کیا آج ہم اسلامی تعلیمات پر آسانی سے عمل پرا ہو سکتے ہیں یا اسلامی تعلیلمات پر عمل کرنا قدامت پسندی اسلامی لباس پہننا اور مسلمانوں جیسی شکل و صرت بنانا باعث عار و شرمندگی سمجھا جاتا ہے ؟

کیا ہم آج ہندو اور انگریزو ں سے آزاد ہیں یا آج بھی ہمارے سرپرست متحدہ ہندو ستان کے مسلمان بادشاہوں کی خصلتوں کے مالک ہیں اور پاکستان سے بڑھ کر انگریز اورہندو کے وفادار ہیں کیا ہم نے آزادی کے بعد جھوٹ اور فریب دھوکہ دہی کرپشن ناانصافی حق تلفی جیسی برائیوں سے چھٹکارا حاصل کر لیا ہے کیا آج کی نسل پاکستانی اسلام کا چہرہ ہے ؟کیا آذادی کے بعد پوری قوم کے لیے یکساں نظام تعلیم موجود ہے یا آج بھی غریب اور امیر کے لیے الگ الگ نظام تعلیم ہے ؟کیا ہمیں صحت اور علاج معالجے کی بہترین سہولیتیں میسر ہیں یا ہم اپنے پیاروں کو آج بھی گھروں سسک سسک کر مرتا دیکھنے کے عادی ہو گئے ہیں کیا ہم آزادی سے اپنا ووٹ استعما ل کر سکتے ہیں اور کیا ہمیں آزادی کے ظالم و جابر حکمران کے سامنے کلمہ حق کہنے کی جرات ہے ؟

ہر ایک پاکستانی اپنے گریبان مین جھانکے اور سوچے کہ بطور پاکستانی ہماری دنیا میں کوئی مثبت شناخت ہے یا ہم پوری دنیا میں دہشت گرد کے طور پر جانے جاتے ہیں کیا ہم پاکستان کو اس طرح کا ماڈل ملک بنانے میں کامیاب ہو گئے جس طرح کاقائد اعظم اور علامہ اقبال نے سوچا تھا کیا ہمارے اس آزاد ملک مین اقلیتوں کو ان کے حقوق حاصل ہیں ؟ اگر ایسا کچھ نہیں یقیناًکچھ نہیں تو ذرا سوچئیے اے پاکستانی قوم جشنآزادی جس بات کا منایا جا رہا ہے جشن آزادی ان چورون لتیروں کا حق بنتاہے جو پاکستان کو دونوں ہاتھوں سے دن رات لوٹ رہے ہیں جنھوں نے کرپشن کے ذریعے اپنی سات نسلوں کے لیے سرمایہ اکٹھا کر کے دوسرے ممالک میں جمع کر رکھا ہے غریب عوام سے لوٹا ہو کئی سو ارب ڈالر سوئس بینکوں میں آج بھی ہمارا انتظار کر رہے ہیں اور کئی سو ارب ڈالر مختلف بر اعظموں میں آف شور کمپنیوں میں پڑے ہوئے ہیں آج بھی ہم تعلیم کے بنیادی حق سے محروم ہیں غریب آج بھی اس ملک میں ایڑیاں رگڑ رگڑ کر مرتا ہے آج ہمارے سرپرست اس مکار ہندو تاجر اس ملک کے ساتھ تجارت کو ترجیح دیتے ہیں جن سے ہم نے آزادی حاصل کی تھی آج اس آزاد ملک میں ہماری ماؤں بہنوں کی عزت محفوظ نہیں آج اس ملک کی مائیں اپنے بچوں کو سکول بھیجنے کے بعد دروزے پے نظریں جمائے بیٹحی ہوتی ہیں کہ ان کے بچے واپس کس حالت میں آئیں گے اور واپس آئی گے بھی یانہیں ؟یوم آزادی پر ہمیں سوچنا ہو گا کہ اگر اس ملک میں وہ سب کچھ نہیں ہو رہا جو عوام کی بہتری کے لیے کرنا تھا۔{jcomments on}

اپنا تبصرہ بھیجیں