علم سیاسیات کی انتہائی سادہ تعریف شہری ریاستوں کا علم ہے جیسا کہ اس تعریف کے متعلق بعض کا خیال ہے کہ یہ علم سیاسیات کے جدید تصور کا احاطہ نہیں کرتی اس لیے کچھ اسے ریاست کا علم اور بعض ماہرین حکومت کا علم تصور کرتے اور چند ماہرین و مصنفین علم سیاسیات کو ریاست و حکومت دونوں کا علم قرار پاتے ہیں۔
پاکستان کی موجودہ سیاسی صورتحال میں علمِ سیاسیات اپنی جدید اور قدیم دونوں تصورات سے نابلد معلوم ہوتا ہے اسے محض اقتدار اور عہدوں کے حصول تک محدود کر دیا گیا ہے اس کی ایک بنیادی وجہ یہ ہے کہ منصب اور عہدے ایسے لوگوں کو تفویض کر دیے گئے جو جہالت اور غیر شعوری رویے کے علمبردار ہیں ان کی طرزِ سیاست نے ایک اس کی تعریف اور روح کو بدلہ اور دوسرا اپنے غیر اخلاقی رویے کو اس قدر عام کیا کہ اسے حقیقت کا درجہ دے دیا گیا۔
سیاست محض حکومت چلانے کا نام نہیں بلکہ افراد کی رہنمائی کرنا اور دیگر جماعتوں اور اشخاص کے درمیان طاقت، وسائل کی بہترین تقسیم اور فیصلہ سازی کا عمل بھی شامل ہے۔ جہاں آج افراد نے اس علم کو سیکھنا تھا، ریاست اور حکومت کے متعلق آگاہی حاصل کرنی تھی وہاں ہوس، اقتدار کی تڑپ، طمع و لالچ اور غیر اخلاقی سوچ کو پروان چڑھایا گیا۔ اسلام کا تصورِ سیاست انتہائی واضح اور شفاف ہے یہ ہر اس فعل و عمل کا نام ہے جس کے انجام پانے سے لوگ اصلاح کے قریب اور فساد سے دور ہو جائیں۔
اسلامی تصور سیاست افراد اور معاشرے کی اصلاح کے ساتھ ان میں ہم آہنگی اور بھائی چارے کے فروغ کا نام ہے مگر بدقسمتی کے ساتھ آج سیاست انتہائی حساس موڑ پر کھڑی ہے اصلاحِ معاشرہ کی بجائے فساد فی الارض کی پالیسی پر گامزن ہے تکفیری سوچ اور خارجی فکر کو سیاست کے نام پر عام کیا جا رہا ہے۔ اپنے مخالف نظریہ کے حامل افراد یا حاکم وقت کی تکفیر کرنا، حاکمِ وقت کو یزید اور حکومت وقت کو یزیدی حکومت کہنے کے ساتھ خود کو سیدنا حسین رضی اللہ عنہ کے ساتھ تشبیہ دینا سرا سر جہالت اور گمراہی ہے۔ یہ رویہ معاشرے میں عام ہو چکا ہے اپنے مخالف نظریہ کے حامل شخص کے رد کیلئے ہر اس اصول کو نظر انداز کیا جاتا ہے جس کا تعلق اسلام اور اسلامی اقدار کے ساتھ ہے۔
اصولی رد کی بجائے تکفیر کی راہ لی جاتی ہے، حاکمِ وقت کو نصیحت کی بجائے اس کے ایمان کو آڑے ہاتھوں لیا جاتا ہے یہی سوچ معاشرے میں عام ہو چکی ہے اس کے منفی اثرات نمایاں ہیں
پس داعیان الی اللہ پر واجب ہے کہ وہ اس سنگین صورتحال کو بھانپتے ہوئے شرعی حدود کا التزام کریں حاکم وقت کو نصیحت کے ساتھ عام الناس کو اس مسئلہ پر رہنمائی فرمائیں اور اپنی اس دعوت پر احسن طریقے سے مستعد رہیں، اللہ تعالیٰ سے تضرع و زاری کے ذریعے حکمرانوں کی ہدایت طلب کی جائے نہ کہ سختی، شدت اور انتہا پسندی کے ذریعہ لوگوں کو ریاست اور حاکم وقت کے خلاف ابھارا جائے۔
مسلمان حکمرانوں کی جانب سے ظلم و بربریت، ناقص کارکردگی اور نا انصافی قطعا انہیں ملت سے خارج نہیں کرتی اور یہاں محض سیاسی فکر کی ہم آہنگی نہ ہونے کی بدولت حکمران اور حکومت کے خلاف انتہا پر جانا جرآت اور بہادری سمجھا جا رہا ہے۔
تکفیر اسلام کا منہاج دعوت ہے نہ ہی کوئی اسلوب بلکہ یہ تو اسلام مخالف فکر ہے۔ آج مختلف سیاسی جماعتیں اور ان کے عمائدین اپنی مزاحمت، سیاسی سوجھ اور اپنی سیاسی دعوت کو تقویت بخشنے کیلئے ایسی روش اختیار کرتے ہیں۔ حکمرانوں کی کوتاہیوں اور سخت ترین اقدامات پر حکمت اور موعظہ حسنہ کے ساتھ ان کی اصلاح کی بھرپور کوشش کرنی چاہیے مثبت تنقید کے ذریعے غلطیوں کی نشاندھی کرنی چاہیے۔
عوام الناس سیاسی پس منظر کو سمجھتے ہوئے کارکردگی اور ملکی صورتحال کو زیر بحث لائیں اشتعال انگیزی اور نفرت کی سیاست کے فروغ کی وجہ نہ بنیں۔
ملکی معاملات اور صورتحال کے پیش نظر کسی بھی سیاسی جماعت کا انتخاب آپ کا حق ہے آپ جن نظریاتی بنیادوں پر کسی جماعت یا رہنما کو ملکی معاملات میں بہتر اور موزوں سمجھتے ہیں ان سے اپنی وابستگی کا اظہار ضرور کریں ان سے کسی حد تک وفاداری کا ثبوت بھی دیں مگر اس کا ہرگز یہ مطلب نہیں کہ آپ سیاسی اختلاف کی بنیاد پر کسی کے ایمان اور حب الوطنی پر حملہ آور ہوں اور ایسا بڑی شدومد سے ہو رہا ہے یہ سوچ ہی معاشرے میں بد امنی اور بد اخلاقی کی راہ ہموار کرتی ہے
ملکی ترقی اور خوشحالی کیلئے ایک بڑی رکاوٹ بنتی ہے۔اختلاف رائے اور سیاسی فکر کی ترویج کے اصول واضح ہیں ایک پڑھا لکھا با شعور شہری اپنے کردار اور عمل کے ساتھ اپنی فکر، سوچ اور نظریہ کی ترویج کیلیے پیش پیش ہوتا ہے اور وہ ہر اس عمل سے گریزاں ہوتا ہے جس کے منفی اثرات معاشرے پر مرتب ہوں اور وہ معاشرے میں ایسی سیاست کا خواہاں ہوتا ہے جس کا مقصد ترقی، خوشحالی، اور استحکام ہوتا ہے اور وہ اپنے مخالف نظریہ کے حامی افراد کے احترام اور عزت کا خیال رکھتا ہے ہمیشہ اپنے نظریات کو دلائل و براہین کی روشنی میں پیش کرتا ہے۔
سیاسی فکر اگر توازن برقرار نہیں رکھ پائی گی تو معاشرہ بد امنی کی جانب گامزن ہوگا اور اپنے سیاسی مخالف پر اسلام کی آڑ میں ان کے کردار اور ایمان کو مشکوک پیش کیا جائے گا نوخیز ذہنوں کی بدولت جنگ و جدل کا ماحول پیدا کیا جائے گا منفی تبصرے اور جذباتی نعروں کے ذریعے اشتعال انگیزی کو ہوا دی جائے گی۔
سیاسی جماعتیں اپنے منشور میں اپنی عوام کی بہترین ذہن سازی کا خیال رکھیں وطن عزیز کی سالمیت اور ریاست پاکستان کی بقاء کا درس دیں محض اقتدار کے حصول کیلئے عوام الناس میں عدم برداشت کے رویے کو عام نہ کریں اخلاقی اقدار کا بھرپور خیال رکھیں اپنے عمل، کردار اور بہترین حکمت عملی کے ذریعے اپنی جماعت اور بیانیہ کی تشہیر کریں مخالف نظریہ کے حامی افراد کی عزت نفس مجروح نہ کریں ۔ اسلام کی روشنی میں کی جانے والی سیاست ہمیشہ خیر کا سبب بنتی ہے اور یہی مسلم معاشروں کی اولین ترجیح ہوتی ہے۔