ہمارا نظام تعلیم /محمد حسین

تعلیم کا انسان کی تربیت و کردار پر گہرا اثر پڑتا ہے انسان کو جس قسم کی تعلیم دی جاتی ہے ویسے اثرات اس پر مرتب ہوتے ہیں اور ویسی ہی تربیت کا ظہور ہوتا ہے صدیوں سے انسان میں تہذیب و شعور کی شمع فروزاں کرنے کیلئے مختلف طریقہ ہائے تعلیم وضع کئے جاتے رہے ہیں اسلام نے

آکر تعلیم کی اہمیت کو بہت زیادہ اجاگر کیا حتیٰ کہ پہلی وحی تعلیم و تعلم سے متعلق ہی ہے جس میں اللہ تعالیٰ نے نبی پاک ؐ کو فرمایا ’’آپ پڑھےئے اپنے رب کے نام کے ساتھ جس نے ہر چیز کو پیدا کیا اس نے انسان کو ایک چمٹے ہوئے خون سے پیدا کیا آپؐ پڑھیے اور آپ ؐ کا رب ہی سب سے زیادہ کریم ہے وہ جس نے علم دیا قلم کے زریعے سے اس نے علم دیا انسان کو اس کا جس کو اس نے جانا ہی نہیں‘‘ہمارے پیارے نبی ؐ نے بھی علم کے حصول پر زور دیا ہے اور ہر مرد اور عورت پر علم کا حاصل کرنا فرض قرار دیا ہے

خود اپنے بارے میں نبی ؐ نے فرمایا ’’مجھے معلم بنا کر بھیجا گیا ہے ‘‘انسان اس وقت تک انسانیت کی معراج کو نہیں پہنچ سکتا جب تک تعلیم یافتہ نہ ہو جائے تعلیم زندگی کیلئے ہی نہیں بلکہ خود زندگی ہے آج اکیسویں صدی میں تعلیم کی اہمیت کو پہلے سے زیادہ محسوس کیا جا رہا ہے نہ صرف یہ معاشرتی بلکہ سب سے اہم اقتصادی مسلہ ہے پاکستان ایک آزاد اور خود مختار ملک کی طرح جانا جاتا ہے پاکستانی قوم میں وہ تمام تر صلاحتیں موجود ہیں جو ترقی کی اوج ثریا تک پہنچا سکتی ہیں لیکن اس سب کے باوجود ہمارے ہنر مند افراد کی ایک بڑی تعداد بیرون ملک میں اپنے فن کے جواہر دکھا رہی ہے اس کی بنیادی وجہ ناسازگار ماحول اور منصوبہ بندی کا فقدان ہے حکومت پاکستان کی زمہ داری بنتی ہے کہ بر وقت اور مناسب منصوبہ بندی کر کے پاکستان میں روزگار کے بہتر سے بہتر مواقع فراہم کرے تاکہ قابل اور ہنر مند افراد کی ایک بڑی تعداد پاکستان میں ہی اپنی صلاحیتوں کو بروئے کار لا سکیں ہمارا نظام تعلیم اتنا ناقص اور ناکارہ ہے کہ ہنر مند افراد پیدا کرنے کی صلاحیت نہیں رکھتا جس کی بناء پر پاکستانیوں کی ایک بڑی تعداد مغربی ممالک کے تعلیمی اداروں میں تعلیم حاصل کرتی ہے ہمارے نظام تعلیم کی ناقص کارکردگی کی اصل وجہ یہ ہے کہ ہم ایک آزاد ملک میں رہ کر بھی غلامی کی زندگی گزارنے پر مجبور ہیں

پاکستان ایک اسلامی ملک ہے لیکن اس کے باوجود تعلیمی نظام میں اسلام کو محض ایک مضمون کی حیثیت دے رکھی ہے جبکہ اسلام ایک مکمل آئین اور ضابطہ حیات ہے یہ انسانی زندگی کے تمام گوشوں کی مکمل رہنمائی کرتا ہے کوئی شعبہ زندگی بھی مذہب سے مستسنیٰ نہیں ہے اس کے باوجود اعلی سطح پر اسلام کی ہمہ گیری اور انصاف پسندی کو تسلیم نہیں کیا جا رہا ۔ہمارے تعلیمی نظام کی ناقص کارکردگی کی ایک وجہ طبقاتی نظام کی کشمکش بھی ہے طلباء میں تحقیق و جستجو ،صیح فکر و سوچ ناپید ہوتی جا رہی ہے اساتذہ کی کمی اور ذہنی جمود کے علاوہ تعلیمی اداروں میں تربیت کا فقدان بھی ہے طوطے کی طرح چند الفاظ اور فقرات رٹا دیے جاتے ہیں اور عملی زندگی میں وہ اعلیٰ اور عمدہ اوصاف ناپید ہوتے ہیں جن کی معاشرے کو اہم ضرورت ہے ۔ایک بڑا مسلہ جو ہمارے تعلیمی اداروں کو در پیش ہے وہ پرائمری سطح پر اساتذہ کی اپنے فرائض منصبی میں غفلت ہے دور دراز پسماندہ دیہی علاقوں میں اس بات کا کھلی آنکھوں سے مشاہدہ کیا جا سکتا ہے

سکولوں کی خستہ اور شکستہ عمارتیں جو اپنی بوسیدگی کی وجہ سے نوحہ کناں ہیں ان کی تعمیر نو کی طرف مسلسل عدم توجہی برتی جا رہی ہے تعلیم کو ایک کاروبار بنا لیا گیا ہے ہر گلی اور ہر محلے میں سکولوں اور اکیڈمیوں کی بھرمار ہے جس کی وجہ سے تعلیم کا معیار پست ہوتا جا رہا ہے ۔ایک بنیادی اہم مسلہ ہمارا مغربیت سے متاثر ہونا اور ان کے نظام کو بند آنکھوں اور بغیر سوچے سمجھے قبول کر نا ہے جس کی وجہ سے انگریزی زبان کو لازم کیا جا رہا ہے یہاں دوہرے معیار کی تعلیم دی جا رہی ہے’’ انگلش میڈیم اور اردو میڈیم ‘ ‘ جبکہ آہستہ آہستہ تمام تعلیمی اداروں کو انگلش میدیم بنایا جا رہا ہے حالانکہ ہم سب جانتے ہیں کہ انسان جو بات اپنی مادری زبان میں جلد سمجھ جاتا ہے وہ دوسری زبانوں میں سمجھ نہیں پاتا ہمارے لئے یہ بہت بڑی الجھن پیدا کر دی گئی ہے ایک تو سائنسی مضامین جن کو اردو میں سمجھنا اور ان کے فارمولوں اور کلیوں کو یاد کرنا بذات خود جان گسل کام ہے دوسرا اسے انگلش میں پڑھانے سے وہ مذید پیچیدہ اور مشکل صورت اختیار کر لیتے ہیں ۔ہمارے لئے چین ایک ماڈل کی حیثیت رکھتا ہے جس نے نہ صرف اپنے تعلیمی اداروں میں سب مضامین چینی زبان میں لاگو کئے ہیں بلکہ انگریزی کو بھی پاس نہیں بھٹکنے دیا اس کے باوجود وہ معیشت میں بہت آگے ہیں اور عالمی سطح پر اپنی برتری کا لوہا منوا چکا ہے ہماری ناکامی کی بنیادی وجہ یہی ہے کہ ہم آزاد ہو کر بھی غلامی کی زندگی گزار رہے ہیں اس لئے ہم تعلیم سے لیکر معیشت تک سب میدانوں میں سب سے پیچھے ہیں

جبکہ دیگر ترقی یافتہ اقوام کسی کی ذہنی غلامی اور مرعوبیت چھوڑ کر اپنی مادری زبان میں اپنا نام و مقام پیدا کرتی ہیں ۔پاکستان ایک اسلامی ملک ہے جسے اسلام کے نام پر حاصل کیا گیا چاہیے تو یہ تھا کہ یہاں کے سرکاری تعلیمی اداروں میں قرآن و سنت کو بطور نصاب پڑھایا جاتا جبکہ الٹا رہے سہے اسلامی مضامین کو ہی نصاب سے نکالا جا رہا ہے تمام مسلمانوں کا ایمان ہے کہ انسان اللہ کی بنائی ہوئی مخلوق ہے جسے اللہ نے اشرف المخلوقات بنا کر کائنات میں بھیجا ہے اسی نے ہی اس کی دنیوی اور اخروی زندگی کی اصلاح کے لئے آسمانی علوم نازل کئے تاکہ ان علوم کی روشنی میں یہ اپنی حیات کا مقصد جان لے اور اپنے خالق کو پہچان کر اس کی اطاعت بجا لائے اسی وجہ سے اہل ایمان کے نزدیک سب سے بنیادی اور ضروری علم وہ ہے جسے خالق کائنات نے انسانیت کیلئے آسمان سے نازل فرمایا جو اس وقت قرآن و سنت کی صورت میں ہم میں موجود ہے یہ اصل علم ہے جو انسان کو انسانیت سکھاتا ہے انسان کی تربیت کرتا ہے اور اس کے باطن کو سنوارتا ہے لیکن اس سے غفلت برتی جا رہی ہے مادیت کی دوڑ میں مغربیت کی نقالی کی جا رہی ہے پھر امت مسلمہ کا درد رکھنے والے نیک دل مشرقی روایات کے حامل افراد کیوں کر پیدا ہوں ؟{jcomments on}

اپنا تبصرہ بھیجیں