۔آپ کسی بھی وقت کسی بھی سڑک کو دیکھیں اس پر برق رفتار گاڑیاں ہی نظر آئیں گئیں۔آپ نے کبھی سوچا ہے کہ اتنے لوگ اتنے جلدی کہاں آ جارہے ہیں ان کو اتنی جلدی کیوں ہے۔انھی لوگوں میں راقم بھی شامل ہے جو روز صبح سویرے اپنی موٹر بائیک پر ڈیوٹی کے لیے گھر سے نکلتا ہے۔جاتے ہوئے راقم نے متعدد بار اس چیز کو نوٹس کیا ہے کہ پرانی چونگی نمبر چار میرپور کے چوک میں صبح صبح دیہاڑی دار مزدورں کا ایک رش نظر آتا ہے۔ جو اپنے اوزاروں کے ساتھ کھڑے ہوتے ہیں۔بہت دفعہ میں رک کر ان کو منٹوں دیکھتا رہتا ہوں۔ جب بھی کوئی گاڑی یا موٹر بائیک پاس آتی ہے تو یہ بے چارے ایک دم سے اس گاڑی یا موٹر بائیک کے گرد ایک ہجوم اس امید سے لگا لیتے ہیں شائد آج ان کو مزدوری مل جائے گی۔لیکن مزدوری کتنی لینی یا دینی ہے اس پر بحث بھی دیکھی جاتی ہے
۔آخر کار ان میں سے کسی ایک دو کو مزدوری کے لیے انتخاب کر لیا جاتا ہے باقی پھر مایوس ہو کر سائیڈ پر کھڑے ہو جاتے ہیں۔اس کے ساتھ ساتھ وقت بھی کافی ہوجاتا ہے پھر ان لوگوں کو مزدوری کے لیے کوئی نہیں لے کر جاتا۔اس طرح ان کا پورا دن ضائع ہو جاتا ہے۔زیادہ تر مزدور پردیسی ہوتے ہیں ان کی رہائش اور تین وقت کا کھانا پورا کرنا بہت مشکل ہوتا ہے۔پھر وہ اپنے فیملی کو کس حدتک سپورٹ کر سکتے ہیں یہ آپ میرپور کی مہنگائی سے اندازہ لگا سکتے ہیں۔یہاں پر دیہاڑی دار مزدورں کا ذکر کرنا اس لیے ضروری تھا ہے ہم نے اکثر اعلیٰ اور درمیانے طبقے کو اپنی ضروریات کے حوالے سے گلہ کرتے سنا ہوگا کہ ہم مہنگائی کے حوالے سے مارے گئے ہیں
گزر بسر بہت مشکل ہوگیا ہے۔حالانکہ ان کے بچوں کو تین وقت کا بہترین کھانا مل رہا ہے۔ یہ لوگ عیش و عشرت
اور لگژری زندگی کا رونا رو رہے ہوتے ہیں۔ اللہ کا شکر ادا کرنے کے بجائے آئے روز گلے اور شکایات کرنے لگ جاتے ہیں۔ جب میں اپنے آپ کو ان مزدوروں کی جگہ کا تصور کرتا ہوں تو کانپ جاتا ہوں اور اللہ پاک سے شکر کرتا اور معافی مانگتا ہوں کہ ہم اس قابل کہاں تھے جس نے ہمارے رزق کا بندوبست کر دیا۔ ایک حدیث کا مفہوم یہ ہے۔ جو کوئی اللہ کے دیے ہوئے تھوڑے رزق پر راضی ہوگا قیامت کے دن اللہ پاک اس کے تھوڑے اعمال پر راضی ہو جائے گا۔ کوشش کیا کریں اپنے رزق پر راضی رہیں۔ مال کی ہوس تو کبھی ختم نہیں ہوگی اس کو تو صرف قبر کی مٹی ہی ختم کر سکتی ہے۔