ہارہوا لشکر اور ریاست مدینہ

موجودہ حکومت کی خستہ حالی سے ملک کا بچہ بچہ واقف ہے اور جس خستہ حالی میں ملک کو مسلسل دھکیلا جا رہا ہے وہ بھی کسی سے ڈھکی چھپی نہیں ہے۔ اس کے باوجود چند افراد جن کی آنکھوں پر تعصب کا چشمہ لگا ہے انہیں اب بھی سب کچھ ٹھیک ٹھیک نظر آرہا ہے۔ ان کے سامنے وزیراعظم یا ان کی ٹیم کی بات کی جائے تو پہلے تو دفاع کرنے کی کوشش کرتے ہیں لیکن چونکہ اب دفاع کرنے کے لیے کچھ بھی نہیں بچا اس لیے اس میں ناکامی کے بعد جان چھڑانے کے لیے یہ کہتے ہیں کہ عمران خان خود تواہل اور ایماندار ہیں لیکن ان کی ٹیم میں نااہل اور بد دیانت لوگ ہیں یعنی وہ ہارے ہوئے لشکر میں ہیں۔ ایسے افراد سے میں یہ گزارش کرتا ہوں کہ وہ ٹیم کس نے منتخب کی ہے یقینا وزیراعظم نے خود کی ہے، اگر وہ اتنے ایماندار ہیں تو بے ایمانوں کو اپنی ٹیم میں کیوں رکھا ہے۔ ایک صاحب یہ بھی فرما رہے تھے کہ یہ پہلا حکمران ہے جس نے ریاست مدینہ کا نعرہ لگایا ہے میں نے عرض کی کہ اس سے قبل دینی سیاسی جماعتیں بھی اسلامی نظام اور دین کا نعرہ لگاتی ہیں تو آپ لوگ ہی کہتے ہو کہ یہ مذہب کارڈ استعمال کر رہے ہیں لیکن جب آپ مذہب کارڈ استعمال کریں تو جائز ہو جاتا ہے۔
رہی بات بے ایمان ٹیم کی تو ایک ایماندار شخص سے یہ توقع نہیں ہوسکتی کہ اپنے ساتھ بے ایمان لوگوں کو رکھے گا اور ایک اسلامی ملک کا تمام تر انتظام ان کے حوالے کر دے گا۔ ایک دوست یہ بھی کہہ رہے تھے کہ اب وہ ان کی جانچ پڑتال تو نہیں کر سکتے کہ ہر ایک کو پرکھیں کون کیسا ہے اس کے بعد اسے عہدہ دیں۔ انہیں میں نے یہ کہا کہ یہ تو بہت ضروری ہے کہ جن افراد کو آپ ملک پر مسلط کر رہے ہیں، اتنے بڑے بڑے عہدے دے رہے ہیں تو ان کی جانچ پڑتا ل کریں۔ ریاست مدینہ کا نعرہ لگانے والوں نے ایسے لوگوں کو ملک پر مسلط کیا جنہیں یہ خود اپنی زبانوں سے کرپٹ اور بے ایمان قرار دے چکے تھے۔ ریاست مدینہ میں تو یہ حال تھا کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ جب کسی شخص کو کسی علاقے کا حاکم یا گورنر بناتے تھے تو اس کی مکمل تحقیق کیا کرتے تھے، ان کی سیاسی و انتظامی صلاحیتوں کے علاوہ دینداری کو بھی دیکھا کرتے تھے۔ وہاں صرف جیتنے والے گھوڑوں کا انتخاب نہیں ہوتا تھا کہ جو انہیں اقتدار میں لا سکیں یا ان کے اقتدار کو طول دے سکیں انہیں ٹکٹ دیے جائیں اور وزارتوں سے نوازا جائے بلکہ وہاں تو حکومت کو اعزاز نہیں ذمہ داری سمجھا جاتا تھااس لیے دیانتداری اور تقویٰ کو ترجیح دی جاتی تھی۔
حضرت عمر رضی اللہ عنہ جب کسی کو عامل مقرر کرتے تو اس سے یہ عہد لیتے کہ ترکی گھوڑے پر سوار نہ ہو گا۔ باریک کپڑے نہ پہنے گا، چھنا ہوا آٹا نہ کھائے گا۔ دروازے پر دربان نہ رکھے گا۔ اہل حاجت کے لیے دروازہ ہمیشہ کھلا رکھے گا۔ یہ شرطیں پروانہ تقرری میں درج کر کے مجمع عام میں پڑھ کر سنائی جاتی تھیں۔ عاملوں کے اثاثوں کی فہرست تیار کر کے اپنے پاس رکھی جاتی تھی، اگر ان میں کہیں غیر معمولی اضافہ ہوتا تو ان کا مواخذہ کیا جاتا تھااور اضافی مال بیت المال میں جمع کرا دیا جاتا تھا۔ بڑے بڑے جلیل القدر صحابہ کرام کا سخت احتساب ہوتا تھا، کئی بار ایسے صحابہ کرام جو رسول اللہ ﷺ کی طویل صحبت سے فیض یاب ہوئے لیکن وہ امور سیاست و سلطنت میں دلچسپی نہ ہونے کی وجہ سے ان میں مہارت نہیں رکھتے تھے تو انہیں بھی عوام میں مقبولیت کے باوجود حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے معزول کر دیا۔ صرف دوستی و رشتہ داری کی بنا پر عہدے دینے کا تو کوئی تصور ہی نہیں تھاکہ جو دوست نااہلی کی وجہ سے انتخابات میں حصہ نہ لے پائیں انہیں مشیر بنا کر عوام پر مسلط کر دیا جائے اور ملکی خزانے پر علیحدہ سے اضافی بوجھ ڈال دیا جائے۔
اسی طرح عاملین کی تقرری کے بعد انہیں ویسے ہی نہیں چھوڑ دیا جاتا تھا کہ وہ کچھ بھی کرتے رہیں ایک بار انہیں مقرر کر دیا اب وہ اپنے اثاثوں میں اضافہ کر لیں، کچھ عرصہ فائدہ اٹھا لیں ایسا ہر گز نہیں ہوتا تھا۔ گورنروں کے متعلق ذرا سا حرف شکایت کانوں تک پہنچ جاتا تو فوراً انہیں طلب کر لیتے اور قاصد کو یہ بھی کہتے تھے کہ وہ جہاں اور جس حال میں ہوں انہیں لے کر فوراً حاضر ہوں۔ ان کی حاضری پر ان سے سخت سوالات کیے جاتے تھے۔ اگر وہ ان کا تسلی بخش جواب دے پاتے تو ٹھیک ورنہ فوراً معزول کر دیا جاتا تھا۔ ایسا نہیں ہوتا تھا کہ ایک بار جسے پارٹی ٹکٹ دے کر رکن اسمبلی بنا دیا یا وزیر و مشیر مقرر کر دیا اب وہ پانچ سال کے لیے پکے ہو گئے کچھ بھی کرتے رہیں ان سے استعفیٰ نہیں لیا جا سکتا، عوام کتنے ہی چیختے چلاتے رہیں، اب کم از کم پانچ سال تک تو یہ کہیں جانے والے نہیں ہیں۔ اگر احتساب ہوتا بھی ہے تو وہ مخالفین کا اپنے ارد گرد رہنے والوں کا احتساب نہیں ہوتااور نہ ہی اپنے اقتدار کے کمزور پڑجانے کے خوف سے ان کے احتساب کی ہمت ہوتی ہے۔
ایسی ریاست مدینہ اور ایسے ریاست مدینہ کا کھوکھلانعرہ لگانے والوں اور ان کا دفاع کرنے والوں اور سب کچھ دیکھ لینے کے بعد بھی انہیں ووٹ دینے والوں کو یہ سب کچھ سوچنا چاہیے اور اب جبکہ سب کچھ سمجھ چکے ہیں تو اب تو کم از کم خدا کا خوف کرنا چاہیے۔ ریاست مدینہ کے حالات بھی پڑھ لینے چاہیئیں اور پاکستان میں ریاست مدینہ کا خواب دکھانے والوں کے کردار کا بھی جائزہ لے لینا چاہیے۔ یہ بھی سوچنا چاہیے کہ ایک ایماندار شخص اپنے اردگرد بے ایمانوں کا ٹولا کیسے جمع کر سکتا ہے اگر کرتا ہے تو پھر اس کی ایمانداری کیسی۔

اپنا تبصرہ بھیجیں