ہائی وے پٹرولنگ پوسٹیں افادیت کھونے لگیں؟چوہدری محمداشفاق

پنجاب ہائی وے پٹرولنگ پولیس کے بارے میں بہت عرصہ سے یہ سنتے چلے آرہے ہیں کہ یہ پولیس شاہرات پر حادثات کو کنٹرول کرنے میں بہت مدد گار ثابت ہو رہی ہے۔اور یہ پولیس جس جگہ بھی کوئی حادثہ یا واقع رونما ہو جائے تو چند منٹوں میں وہاں پر پہنچ

جاتی ہے اس طرح کی دیگر باتیں بھی سن رکھی تھیں لیکن یہ تمام باتیں اُس وقت با لکل بے معنی ثابت ہوئیں جب گزشتہ ہفتے ایک انگلینڈ پلٹ خاندان کو چوکپنڈوڑی ہائی وے پٹرولنگ پولیس کی چیک پوسٹ کے سامنے دیدہ دلیری سے چندکار سوار ڈاکوؤں نے لوٹ لیا اور لوٹا بھی اس تسلی سے کہ خواتین کے کانوں اور کلائیوں سے زیورات بھی اتروا لیے۔اس سارے واقعے میں سب سے اہم بات یہ ہے جب اس خاندان کو لوٹا جا رہا تھا تو پٹرولنگ پولیس کی گاڑی بالکل پاس کھڑی تھی اور اس میں ڈرائیور بھی موجود تھا۔جو خاموشی سے ڈاکوؤں کو ڈاکہ ڈالتے دیکھتا رہا ہے اور یہاں یہ کہنا بے جا نہ ہو گا کہ مذکورہ ڈرائیور ڈاکوؤں کی حفاظت پر مامور تھا۔گورنمنٹ پنجاب نے روات دھان گلی روڈکو محفوظ بنانے کے لیے چوکپنڈوڑی اور شاہ خاکی کے مقام پر دو چیک پوسٹیں قائم کر رکھی ہیں۔جن پر مجموعی طور پر دو موبائل گاڑیاں اور پچاس کے لگ بھگ کی تعداد میں اہلکار موجود ہیں۔مگر ان پچاس اہلکاروں کی کارکردگی پر نظر دوڑائی جائے تو وہ بالکل صفر نظر آتی ہے۔میں اکثر چوکپنڈوڑی چیک پوسٹ پر موجود گاڑی کو چوکپنڈوڑی کے گردونواح میں دیکھتا رہتا ہوں جو ہر وقت شہر میں کسی نہ کسی جگہ دیکھائی تو ضرور دیتی ہے لیکن اس میں موجود صرف دو یا تین اہلکار خوش گپیوں میں مصروف نظرآتے ہیں اور اپنے ذاتی کام کرتے دیکھائی دیتے ہیں اوربعض اوقات گاڑی میں صرف ایک ڈرائیور موجود ہوتا ہے باقی اہلکار جن کی تعداد کم وبیش پانچ ہونی چاہیے غائب نظر آتے ہیں اس سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ مذکورہ پولیس کو چیک کرنے کے لیے کوئی خاص نظام موجود نہیں ہے ایسی پولیس جس کا کام ہی شاہرات پر ہونے واے حادثات کی روک تھام کرنا ہے اُس کے گھر میں اس طرح کی بڑی ڈکیتی محکمہ کے اعلیٰ حکام کے ماتھے پر بہت بڑا داغ لگا گئی ہے۔اور عوام علاقہ برملا یہ کہتے پھر رہے ہیں کہ جو پولیس اپنا فرض نبھانے سے قاصر ہے آخر اس کو کس مقصد کے لیے اتنی بھاری تنخوائیں دی جا رہی ہیں مذکورہ دونوں چیک پوسٹوں پر اتنی زیادہ نفری محض روٹیاں توڑنے کے لیے کیوں لگائی گئی ہے اگر ڈکیتیاں پولیس کی موجودگی میں بھی ہو رہی ہیں تو پولیس کس مقصد کے لیے ہے ۔پٹرولنگ پولیس کی چوکپنڈوڑی کے مقام پر موجود پوسٹ جو علاقہ کی حفا ظت کے لیے قائم کی گئی ہے عین اُس کے پاس اتنا بڑا حادثہ ہو جانا کوئی معمولی بات نہیں ہے اس حادثہ سے کئی شکوک و شبہات جنم لے رہے ہیں یہ پولیس اپنی آنکھوں کے سامنے لُٹ جانے والے خاندان کو بچانے کی کوشش میں کیوں ناکام رہی ہے جس دن یہ واردات ہوئی اُس دن صبح کے وقت گاڑی بمع عملہ روڈپر موجود تھی اور اُس وقت یعنی حادثہ سے تھوڑی دیر پہلے گاڑی کلرسیداں سے چوکپنڈوڑی کی طرف واپس آرہی تھی اس میں ایک اے ایس آئی سمیت پانچ اہلکار موجود تھے ایک اے ایس آئی اور ایک اہلکار نندنہ کے مقام پر صبح کی نماز کے بہانے اُتر گئے باقی تین اہلکار چیک پوسٹ کے سامنے آکر رُکے دو سیدھے چیک پوسٹ کے اند ر چلے گئے اور ایک اہلکار ڈرائیور گاڑی کو لے کر چیک پوسٹ کے سامنے موجود سروس اسٹیشن پر چلاگیاجونہی اس نے گاڑی وہاں پر کھڑی کی تو اس وقت اُس کی آنکھوں کے سامنے یہ واردات ہونا شروع ہوگئی یہاں پر سوال یہ پیدا ہوتاہے کہ اس اہلکار نے اپنے اے ایس آئی کو اطلاع کیوں نہ کی اور اپنے چیک پوسٹ میں موجود دیگر ساتھیوں کو اطلاع کیوں نہ کی ایسے بہت سارے سوالات چیک پوسٹ میں موجود اہلکاروں کی کارکردگی کو مشکوک بنا رہے ہیں اس میں کوئی شک نہیں کہ وارداتیں ہر جگہ ہوتی رہتی ہیں لیکن اگر کوئی واردات کسی تھانہ یا چیک پوسٹ کے بالکل پاس ہو جائے تو اس میں حیرانگی ضرور ہوتی ہے اس واقعہ کے بعد سات اہلکاروں کو معطل کر دیا گیا ہے لیکن معطل کرنا ہی کافی نہ ہو گا بلکہ اس کیس کو میرٹ بنا کر ڈبل کیا جائے اور قصور وار اہلکاروں کو عبرت ناک سزادے کر اس داغ کو تھوڑا بہت ضرور دھویا جاسکتا ہے اور اس کیس کی پیش رفت کے بارے میں ہر وقت میڈیا کو آگاہی دی جائے اور ساتھ ساتھ ان پوسٹوں پر تعینات اہلکاران کو چیک بھی کیا جائے کیوں کہ ان کے بارے میں معلوم ہوا ہے کہ یہ اہلکاران باری باری ڈیوٹیاں دیتے ہیں اور تمام اہلکار ایک دن ڈیوٹی پر موجودنہیں ہوتے ہیں اور آپس میں ملی بھگت کر کے کچھ اہلکاروں کو غائب کر دیتے ہیں محکمہ کے افسران کو چاہیے کہ اتنے بڑے حادثہ کی وجوہات عوام کے سامنے لائیں پٹرولنگ اہلکاروں کی بے حسی اور سب کچھ نظر آنے کے باوجود حرکت میں نہ آنا کیا ظاہر کرتا ہے ان تما م حقائق پر سے پردہ اٹھا کر جلد منظر عام لائیں بصور دیگر عوام پٹرولنگ پولیس کے نام سے بھی دور بھاگیں گے ۔{jcomments on}

 

اپنا تبصرہ بھیجیں