ہائر ایجوکیشن کمیشن طلباء کے مسائل کو مدنظر رکھے

ضیاء الرحمن ضیاء/پاکستان کے سب سے بڑے تعلیمی کمیشن ہائر ایجوکیشن کمیشن وقتا فوقتا ایسی پالیسیوں کا اعلان کرتا رہتا ہے جس کی وجہ سے طلباء کے مسائل میں اضافہ ہو جاتا ہے۔ ایچ ای سی کی پالیسیاں ہمیشہ سمجھ سے بالا تر رہی ہیں اور اب بھی ہائر ایجوکیشن کمیشن نے پی ایچ ڈی کے متعلق نئی پالیسیوں کا اعلان کرتے ہوئے جہاں بہت سے طلباء کے لیے آسانیاں پیدا کرنے کی کوشش کی ہے وہیں بہت سے طلباء کو تشویش میں مبتلا کر دیا ہے۔ ایچ ای سی کی پالیسیاں کئی پہلوؤں سے مبہم ہوتی ہیں جن کو واضح ہونے میں اچھا خاصا وقت درکار ہوتا ہے اور ان پالیسیوں سے متاثر طلباء کا کافی وقت ضائع ہو جاتا ہے2016میں بھی ایچ ای سی نے بی ایڈ اور ایل ایل بی کے متعلق پالیسی جاری کی تھی اور اچانک ان پروگراموں کا دورانیہ بڑھا دیا جس کی وجہ سے لاتعداد طلباء مشکل کا شکار ہو گئے۔ اس پالیسی کے مطابق ایچ ای سی نے ایل ایل بی کا دورانیہ تین سال سے بڑھا کر پانچ سال جبکہ بی ایڈ ایک سال سے بڑھا کر چار سال کر دیا تھا اور ان دونوں پروگراموں میں بی اے کی بجائے ایف اے کے بعد داخلے کی شرط عائد کر دی۔ اب جو طلباء بی اے کر چکے تھے یا کر رہے تھے اور ایک سال یا ایک، دو سمسٹرز پڑھ چکے تھے ان کے لیے یہ مشکل پیدا ہو گئی کہ وہ اپنی اس تعلیم کا ایک سال یا دوسال جو وہ بی اے میں لگا چکے تھے چھوڑ کر واپس ایف اے کی بنیاد پر پانچ سالہ ایل ایل بی یا چار سالہ بی ایڈ میں داخلہ لیں۔ اب طلباء کے لیے فیصلہ کرنا مشکل ہو گیا کیونکہ ایچ ای سی نے پالیسی تو نافذ کر دی لیکن ان طلباء کے لیے کچھ نہ سوچا۔۔ تب مختلف شہروں میں بہت سے تعلیمی اداروں کے طلباء نے احتجاج کیے جس کی وجہ سے ایچ ای سی نے اپنی پالیسی میں تبدیلی کی اور ایل ایل بی کے لیے تو کچھ عرصہ تک اس پالیسی کے نفاذ کو روک دیا لیکن بی ایڈ کے لیے بی ایڈ آنرز متعارف کرا کے بی اے پاس طلباء کے لیے اڑھائی سالہ بی ایڈ متعارف کرا دیا۔ اب ایچ ای سی نے پی ایچ ڈی پالیسی متعارف کرائی ہے جس کے تحت آئندہ طلباء کو ماسٹرز کے بعد ایم فل یا ایم ایس نہیں کرنا پڑے گا بلکہ وہ براہ راست پی ایچ ڈی میں داخلہ لے سکیں گے۔ لیکن ایچ ای سی نے یہ وضاحت نہیں کی کہ جو طلباء پہلے سے ایم فل یا ایم ایس پروگراموں میں داخلہ لے چکے ہیں یا ایک یا دو سمسٹرز مکمل کر چکے ہیں وہ کہاں جائیں؟ کیونکہ مستقبل میں ایم فل یا ایم ایس کی ڈگری تقریباً ختم ہی ہو جائے گی کیونکہ تمام طلباء ماسٹرز کے بعد بجائے ایم فل میں وقت ضائع کرنے کے براہ راست پی ایچ ڈی میں ہی داخلہ لیں گے تو ایسی ڈگری جس کا کوئی مستقل نہیں ہے چند طلباء کو اس میں وقت ضائع کرنے کے لیے کیوں چھوڑا جا رہا ہے؟ اس کے علاوہ ان طلباء میں تشویش کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ اب جبکہ وہ ایم فل میں داخلہ لے چکے ہیں اور کچھ نہ کچھ پڑھ بھی چکے ہیں تو اب ان کے دو یا تین سال تو لگ ہی جائیں گے جبکہ ان کے بعد ایم اے کرنے والے براہ راست پی ایچ ڈی میں داخلہ لیں گے اور ان سے پہلے پی ایچ ڈی کر لیں گے۔ اب یہ طلباء ادھر کے رہے نہ ادھر کے۔ لہٰذا ایچ ای سی کو چاہیے کہ وہ پالیسیاں بناتے ہوئے تمام طلباء کے مسائل کو مد نظر رکھے اور اپنی پالیسیاں ہر پہلو سے واضح کرے کہ اس وقت جو طلباء جس درجے میں ہیں وہ اس پالیسی سے کیسے فائدہ اٹھائیں گے یا متاثر ہوں گے؟ تاکہ طلباء اپنے اپنے پروگراموں کو با آسانی ترتیب دے کر اپنے مستقبل اور فرصت کو مد نظر رکھتے ہوئے بے فکری کے ساتھ اپنی تعلیم مکمل کر سکیں۔ ان میں کسی طرح کی تشویش پیدا نہ ہو اور وہ اچھی طرح اپنی تعلیم مکمل کر سکیں۔ اس کے علاوہ بی اے، بی ایس سی اور ایم اے، ایم ایس سی کے دو سالہ پروگرام بھی ختم کر کے ان کی بجائے چار سالہ بی ایس لازمی قرار دیا گیا ہے۔ اس کے اگر چند فوائد ہیں تو اس کے بہت سے نقصانات بھی ہیں۔ بہت سے طلباء ایسے بھی ہوتے ہیں جو اپنے گھریلو حالات سے مجبور ہو کر تعلیم جاری رکھنے میں مشکلات کا سامنا کر رہے ہوتے ہیں۔ اب وہ ایف اے کے بعد گریجویشن کے لیے دو سالہ بی اے میں داخلہ لے لیتے اور پرائیویٹ یا ریگولر دو سال میں گریجویشن کر لیتے۔ وہ طریقہ قدرے آسان اور سستا ہوتا تھا اور وقت بھی کم صرف ہوتا تھا اور دوسال بعد ڈگری بھی مل جاتی تھی۔ مگر اب جبکہ یہ چار سالہ کر دیا گیا ہے اور یہ ریگولر ہوتا ہے لہٰذا ایسے طلباء جوریگولر نہیں پڑھ سکتے ان کے لیے بھی ممکن نہیں ہے، جو زیادہ فیسوں کا بوجھ برداشت نہیں کر سکتے ان کے لیے بھی مزید تعلیم جاری رکھنا مشکل ہو جائے گا اور ایسے طلباء جو زیادہ عرصہ تک تعلیم جاری نہیں رکھ سکتے کیونکہ بی ایس میں داخلہ لیں گے تو چار سال کے لیے پابند ہو جائیں گے اس کے مقابلے میں دو سالہ بی اے میں داخلہ لینے کی صورت میں انہیں دو سال کے بعد ڈگری مل جاتی ہے تو اب وہ بھی تعلیم جاری رکھنے کے قابل نہیں رہیں گے۔ تو عوام کے لیے تعلیم حاصل کرنے کے راستے بند کیے جا رہے ہیں حالانکہ تعلیم کاحصول آسان سے آسان تر ہونا چاہیے تاکہ عوام زیادہ سے زیادہ تعلیم حاصل کر سکیں اور ہمارے ملک کی شرح خواندگی میں اضافہ ہو۔

اپنا تبصرہ بھیجیں