ہاؤسنگ سوسائٹی مافیا

چند دن قبل میرے نہایت ہی مخلص مشفق دوست اور کلاس فیلو جناب شاہد رضا صاحب سے بات ہوئی ہم چھ سال تک روم فیلو اور کلاس فیلو بھی رہے انہوں نے یونیورسٹی سے فراغت کے معا بعد ہی منہاج یونیورسٹی شریعہ کالج لاہور کے لائیبریرین کی جاب حاصل کر لی ساتھ ساتھ مزید تعلیم بھی حاصل کر لی انہوں نے تین مضامین میں ایم اے اور ایل ایل بی بھی کر رکھا ہے اور ابھی تک مستقل مزاجی سے یہی خدمات انجام دے رہے ہیں بڑے عاجز منکسر المزاج اور بڑی علمی شخصیت ہیں اب تو ان کا اوڑھنا بچھونا ہی کتابیں ہیں اس وقت تک ان کی یہ چھ کتابیں ادب رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہی حقیقت ایمان ہے، مقام والدین،اسلام میں ذاتی دفاع کا تصور،وطن کی حفاظت، اسلامی عقائد کی تعلیم، اسلامیات لازمی بی ایس پروگرام کے لیے چھپ چکی ہیں اس وقت وہ ایک بڑے ہی نادر موضوع سادات کرام کی خدمات کے موضوع پر کام کر رہے ہیں ان کا آبائی تعلق تو جھنگ سے ہے لیکن اب وہ پکے لاہوریے بن گے ہیں کیونکہ ایک تو ان کی جاب یہیں پر ہے اور دوسرا انہوں نے شادی بھی لاہور ہی میں کر لی ہے ان کی شریک حیات نے سیاسیات میں ڈاکٹریٹ کی ڈگری لے رکھی ہے اس وقت وہ منہاج یونیورسٹی بی ایس پروگرام شعبہ سیاسیات کی ہیڈ ہیں شاہد بھائی نے بڑے دکھی ہو کر اپنی داستان غم سنائی کہ دونوں میاں بیوی نے فیصلہ کیا کہ ہم دونوں کی جاب بھی یہیں ہے تو کیوں نہ پلاٹ خرید کر یہیں پر اپنا مستقبل ٹھکانہ بنا لیا جائے کرائے کے بوجھ سے بھی جان چھوٹ جائے گی دونوں نے دن رات محنت کی ٹیوشن پڑھائی لاہور بورڈ میں پیپر مارکنگ کی وغیرہ وغیرہ اس طرح اتنی رقم اکٹھی ہوئی کہ ہم پلاٹ لے سکیں 2018 میں فیروز پور روڈ پر ایک مرحوم سنیٹر کے بیٹے عمار خان کی پاک عرب نام سے مشہور سوسائٹی ہے وہاں پر 28 لاکھ روپے ہے منٹ کرنے کے بعد فائل حاصل کر لی کچھ عرصہ بعد پلاٹ کا قبضہ دیا جانا تھا لیکن ابھی تک ہمیں پلاٹ نہیں ملا تقریباً بیس ہزار افراد متاثر ہوئے ہم نے ہر پلیٹ فارم پر احتجاج کیا حتی کہ پنجاب اسمبلی کے سامنے بھی آواز بلند کی وزیراعظم پورٹل پر بھی شکایت کی لیکن کچھ حاصل نہیں ہوا کیس تو اب چل پڑا ہے ہمارا عدالتی نظام اتنا تیز رفتار ہے کہ اللہ معاف کرے ان کا پوتا ہی گھر تعمیر کرے گا ان کی یہ بات سن کر مجھے والد صاحب کی آپ بیتی یاد آگئی والد صاحب نے94-1993 میں جی سولہ اسلام آباد جو منسٹری آف انٹیریئر کی سوسائٹی تھی میں ایک پلاٹ لیا اس کی تمام اقساط تین چار سالوں میں ادا کر دیں پھر اس کے بعد غالباً اسی ہزار سالانہ ڈویلپمنٹ چارجز کے نام پر اضافی رقم ادا کرتے رہے 16- 2015 تک چار فیز میں سے غالباً دو کی زمیں خریدی گئی تھی باقی کی خریداری جاری تھی 2018 میں ہم نے فائل ہی آگے بیچ دی اتنے سال بیت جانے کے بعد بھی پلاٹ کا قبضہ نہیں دیا گیا تھا اس وقت تک صرف ایک فیز کے ڈویلپمنٹ مکمل ہوئی تھی اور دوسرے کی ابھی جاری تھی اس طرح کے ہزاروں کیس آپ کو ملیں گے قابل افسوس بات تو یہ ہے کہ جو میں نے آپ سے دونوں واقعات ذکر کیے ہیں وہ فیک یا غیر منظور شدہ سوسائٹیوں کے نہیں ہیں بلکہ دونوں ایل ڈی اے اور سی ڈی اے سے منظور شدہ تھیں ان دونوں اداروں نے ان سوسائٹیوں کو این او سی جاری کیا جن کے پاس زمین ہی نہیں تھی اگر تھی تو مطلوبہ ضروت سے کم تھی سمجھ نہیں آرہی کہ جب ان کے پاس زمین ہی نہیں تھی تو یہ سوسائٹیاں منظور کیسے ہوئیں اور کس نے ان کو عوام الناس کے ساتھ کھلواڑ کرنے اور لوٹنے کا قانونی سرٹیفیکیٹ جاری کیا
اب لٹنے والے کس کے ہاتھ پر اپنے ارمانوں کا خون تلاش کریں ذرا ملاحظہ کریں صرف ضلع راولپنڈی میں 415 ہاوسنگ سوسائٹیاں ہیں جن میں سے صرف اور صرف 32 آر ڈی اے سے منظور شدہ ہیں 39 کا این او سی فائنل پراسیس میں ہے 276 غیر قانونی ہیں اور68 تو فیک ہیں جن کا سرے سے وجود ہی نہیں ہے صرف اور صرف اشتہارات پر بیوپار کر رہی ہیں یہ وہ معلومات ہیں جو آر ڈی اے کی ویب سائٹ پر موجود ہیں کچھ ایسی بھی ہوں گی جن کا اندراج ان کے پاس نہیں ہے ہاوسنگ سوسائٹی کے لیے سب سے پہلی چیز زمین ہے اگر سوسائٹی مالک کے پاس زمین ہی نہیں ہے تو وہ سوسائٹی کہاں بنائے گا اگر منظور شدہ سوسائٹی میں فراڈ ہو تو مالک کے ساتھ ساتھ اپرو کرنے والے افراد کو بھی گرفتار کیا جانا چاہیے اور ان کو مالک سے زیادہ کڑی سزا ملی چاہیے کیونکہ اصل لوگوں کے نقصان کا سبب وہ بنا ہے اگر وہ منظوری نہ دیتا تو شاید لوگ زیادہ نقصان سے بچ جاتے ادارے اسی لیے بنائے جاتے ہیں تاکہ لوگوں کو راہنمائی ملے اور وہ نقصان سے بچ سکیں صرف کاغذوں پر لکھنے یا ویب سائٹ پر اپ لوڈ کرنے سے لوگ نقصان سے نہیں بچ سکتے ضرورت تو اس امر کی ہے کہ جس بھی سوسائٹی کی فائل متعلقہ ادارے کے پاس آئے پہلے خفیہ تحقیقات کے ذریعے چیک کیا جائے کہ آیا ان کے پاس مطلوبہ زمین ان کے نام پر ہے بھی کہ نہیں یا صرف فرضی ڈاکومنٹس بنائے گے ہیں اور دوسرا وقتاً فوقتاً چیک کیا جانا چاہیے کہ مجوزہ مقدار سے زیادہ پلاٹ تو نہیں بیچ رہے اور این او سی دیتے وقت انہیں پابند کیا جانا چاہیے کہ آپ اتنے وقت میں ڈویلپمنٹ مکمل کرکے پلاٹ تمام خریداروں کو دینے کے پابند ہیں تاخیر کی صورت میں جرمانہ وصول کیا جائے تاکہ بعد میں کوئی دوسری سوسائٹی تاخیری حربے نہ استعمال کرے اور جو سوسائٹیاں ان سے منظور نہیں ہیں ان کی تشہیر پر مکمل پابندی ہونی چاہیے حتی کہ سائن بورڈ پر بھی پابندی عائد ہونی چاہیئے جو سوسائٹی خلاف ورزی کرے اس کے خلاف قانونی کارروائی عمل میں لائی جائے تاکہ فیک تشہیر نہ ہو فیک تشہیر نہ ہونے سے ہی آدھے لوگ نقصان سے بچ جائیں گے ورنہ کب تک لوگ اپنی ساری زندگی کی جمع پونجی لٹاتے رہیں گے اور مالکان کے جنازوں کو روکتے رہیں گے کہ پہلے ہماری رقم واپس کرو پھر تماری لاش کو جنازے کے لیے لے جانے دیں گے قانون کو حرکت میں آنا ہو گا ورنہ یہ لینڈ مافیا بھی ڈرگ مافیا اور سیاسی مافیا کی طرح معاشرے کو دیمک کی طرح کھا جائے گا۔

اپنا تبصرہ بھیجیں