گھر کی بہو

ساجد محمود
مسلم معاشرے میں عورت کو بلند مقام حاصل ہے اور عورت کو اسلام نے درجہ بدرجہ مساوی حقوق دےئے ہیں، مگر اس کے برعکس موجودہ معاشرے کے اندر عورت کا کردار محض گھریلو امور کی انجام دہی تک محدود ہو کر رہ گیا ہے، اور یہ اٹل حقیقت ہے منفی اعتبار سے بھی ہمارا معاشرہ عورت کے حقوق کے معاملے میں تنگ نظری کا شکار ہے، شہروں میں خواتین تعلیم یافتہ ہونے کی بنا پر اپنے حقوق کی جنگ لڑنے پر آمادہ ہو جاتی ہیں،

مگر دیہات کی سطح پر خواتین کو با اختیار بنانے اور معاشی سر گرمیوں میں حصہ لینے پر شکوک و شہبات کی نظر سے دیکھا جاتا ہے، اور اگر کوئی مرد راہ چلتے اپنی شریک حیات سے دو قدم پیچھے رہ جائے تو اُسے جو رو کا غلام اور زن مرید کے القابات سے نوازا جاتا ہے معاشرے کی اخلاقی پستی کی واضع دلیل ہے فرد معاشرے کو استحکام بخشتی ہے، مرد اور عورت عقد کے ذریعے نئی ازدواجی زندگی کی شروعات کرتے ہیں، بعض اوقات زندگی کا یہ سفر خوشگوار زندگی کا شاخسانہ ہوتا ہے

اور بعض بد قسمت بیٹاں جو دل میں ارمان اور بہاروں کے موسم کی آس لگائے نئی زندگی کا آغاز کرتی ہیں، مگر یہ بہار کا موسم جھاڑے کے موسم میں تبدیل ہو جاتا ہے، اور تمام زندگی دزد الحم سہتے گزر جاتی ہے، رشتہ طے ہونے سے پہلے بڑے بلند و بانگ دعوے کیے جاتے ہیں، گھر کی بہو نہیں بلکہ بیٹی کا مقام دینے کا عہدو پہمان کئے جاتے ہیں، مگر شادی کے بعد سسرالیوں اور خاوند کی جانب سے عرصہ حیات تنگ کر دیا جاتا ہے کھانا پکانے میں عیب تلاش کرنا آداب زندگی سے نا واقفیت کے طعنے روزانہ کا معمول بن جاتے ہیں، جسکی وجہ سے عورتوں میں نفسیاتی امراض جنم لیتے ہیں، روزانہ کی روک ٹوک مستقل جھگڑے کی صورت اختیار کر لیتی ہے اور گھر کی بہو سسرالیوں کی جانب سے جسمانی تشدد گالی گلوچ روزانہ کا معمول بن جاتا ہے، دیہات کے اندر ایسے گھرانوں کی مثالیں موجود ہیں جن میں بہو پر تشدد کے واقعات کسی سے ڈھکے چھپے نہیں دوسری طرف معاشرہ بھی بے

حسی کا شکار ہے گاؤں کے با اثر افراد ان خانگی جھگڑوں کے خاتمہ کیلئے سنجیدہ کوشش نہیں کرتے جسکی بنا پر گھرانے ٹوٹ کر بکھر جاتے ہیں، معاشرے میں اخلاقی اقدار بھی دم توڑ چکی ہیں، ہم سب گھریلو تشدد کے خلاف با آواز بلند بغاوت نہیں کرتے اور اکثر اوقات ان واقعات میں گھر کی بہو کو ہی مور د الزام ٹھہرایا جاتا ہے، بعض رشتے محض دولت کی بنا پر طے کیے جاتے ہیں، اور اس قسم کے رُجوانات دونوں اطراف پائے جاتاے ہیں،اور لالچ کی بنیاد پر قائم کیے گئے رشتے نا پیدار ہوتے ہیں سسرالیوں کی جانب سے لگائی گئی اُمیدیں جب پوری نہیں ہوتیں تو پھر گھریلو چپقلیش جنم لیتی ہے، اور بہو کی زندگی اجیرن کر دی جا تی ہے، دیہات میں کچھ ایسی مخصوص خواتین کا گروہ بھی سر گرم رہتا ہے جن کا مقصد دوسروں کے ہنستے بستے گھروں کو اُجاڑنا ہوتا ہے۔

میاں بیوی کے درمیان نفرت کا بیج بو کر لگائی بجھائی سے آبیاری کیجاتی ہے۔ روزانہ کی آہ وزاری علیحدگی کا سبب بنتی ہے۔ لہذا اس قسم کی شر پسند عورتوں سے کنارہ کشی اختیار کرنی چاہیے، اور معاشرہ کو بھی اس قسم کی حرکات و سکنات رکھنے والی عورتوں سے معاشرتی بائیکاٹ کرنا چاہیے تاکہ وہ اپنے مذموم مقاصد میں کامیاب نہ ہو سکیں اس کے علاوہ ایسے واقعات بھی دیکھنے کو ملتے ہیں کہ اگر بہو ملازمت پیشہ ہے تو سسرالی اور خاوند بیوی کی تنخواہ بٹورنے کی کوشش کرتے ہیں، انکار پر ذلت آمیز سکوک اور ذہنی تشدد کا نشانہ بنا یا جاتا ہے، جو کہ قابل مذمت ہے، ان خانگی لڑائی جھگڑوں کی ایک وجہ جہیز بھی ہے کم جہیز لانے پر بھی گھریلو معاملات میں کشیدگی پائی جاتا ہے۔ لڑکے کی بے روزگاری اور نا مساعد معاشی حالات میں آپس جھگڑے کا سبب بنتے ہیں، اس کے علاوہ بعض ایسے واقعات بھی سامنے آئے ہیں کہ خاوند محض شک کی بُنیاد پر بیوی کو تشدد اور زہنی اذیت کا شکار کرتا ہے، اور ان واقعات کا تسلسل میاں بیوی کے درمیان علیحدگی کا سبب بنتا ہے

، بغیر تحقیق کے محض شک کی بنا پر عورت پر جسمانی اور زہنی تشدد ایک غیر انسانی فعل ہے اور اس سے گریز کرنا چاہیے، خانگی زندگی کی خوشحالی ایک مضبوط خاندان کی بنیادبنتی ہے، مگر ضرورت اس امر کی ہے کہ عورت کے مساویانہ حقوق کو تسلیم کیا جائے، عورت کے خلاف امتیازی سکول حقوق نسواں کے حصول کی راہ میں بڑی رکاوٹ ہے، خواتین کو با اختیار بناے کیلئے اُنہیں زیور تعلیم سے آراستہ کرنا ضروری ہے تاکہ اُنہیں اپنے حقوق و فرائض بائے آگہی حاصل ہو، خواتین اپنے حقوق کے حصول کی خاطر مصروف عمل ہیں مگر اس کے باوجود قدامت پسند افراد کی جانب سے مشکلات کا سامنا ہے ، جسکی وجہ سے اُنہیں خاظر خواہ کامیابی حاصل نہیں ہو سکی، معاشرتی اقدار کا تقاضا ہے کہ دین دار اور دیانتدار افراد ان گھریلو جھگڑے کے خاتمہ کیلئے اپنا مخلصانہ کردار ادا کریں

تاکہ خانگی زندگی خوشگوار بنانے کساتھ گھر کی بہوکی عزت و وقار کو بحال کیا جا سکے، ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم اپنی سوچ اور رویوں میں تبدیلی لائیں اور ماں ، بہن،بیٹی ، بہو کے جائز حقوق کو من و عن تسلیم کیا جائے تاکہ معاشرے کی بقا کو ممکن بنایا جا سکے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں