گوہر ایوب نے پاک فوج سے ریلیز لی اور نجی کاروبار میں مشغول ہوگئے‘پروفیسر محمد حسین کا کالم

columns

سیاسی تجزیہ نگاروں کی جانب سے گوہر ایوب کو ایوب خان کے زوال کا ایک بڑا سبب قرار دیا جاتا ہے۔ اس کی وجہ فوج سے استعفیٰ دینے کے بعد ان کی کاروباری اور سیاسی سرگرمیاں تھیں۔ان سرگرمیوں میں 2 معاملات اہم تھے۔ ایک تو گندھارا انڈسٹریز کا قیام اور دوسرا ان کے والد صدر ایوب خان کی صدارتی انتخابات میں محترمہ فاطمہ جناح کے مقابلے میں کامیابی کے بعد جشنِ فتح منانے کے لیے کراچی میں نکالے جانا والا جلوس۔ اس جلوس کے نتیجے میں شہر بھر میں فسادات پھوٹ پڑے اور 14 افراد اپنی جان سے گئے۔گوہر ایوب نے اپنے سسر کے ساتھ کاروبار کا آغاز کیا اور وہی کاروبار ایوب خان کے لیے ایک دردِ سر بن گیا، کیونکہ حزبِ اختلاف کی جانب سے گوہر ایوب کی کاروباری سرگرمیوں کو سخت تنقید کا نشانہ بنایا گیا۔گوہر ایوب نے فوجی تربیت مکمل کرنے کے بعد 1958ء میں اپنے والد یعنی اس وقت کے کمانڈر ان چیف کے اے ڈی سی کی ذمہ داریاں بھی نبھائی تھیں۔ گوہر ایوب نے 1953ء میں فوج میں شمولیت اختیار کی اور 11 سال فوج میں گزارنے کے بعد استعفیٰ دے دیا

۔ایوب خان ایوانِ صدر میں منتقل ہوئے تو بَری فوج کی طرف سے اے ڈی سی ان کے اپنے بیٹے کیپٹن گوہر ایوب خان تھے۔ تھوڑے ہی عرصے بعد کیپٹن گوہر ایوب خان نے پاک فوج سے ریلیز لی اور نجی کاروبار میں مشغول ہوگئے۔ ان کی جگہ ایوب خان کے دوسرے صاحبزادے کیپٹن اختر ایوب خان، صدرِ پاکستان کے اے ڈی سی بن کر تشریف لے آئے۔ تھوڑے عرصے بعد انہوں نے بھی پاک فوج سے ریلیز لے لی اور کاروبار میں مصروف ہوگئے۔
’فیلڈ مارشل محمد ایوب خان، جس شخص کا پشتوں سے پیشہ آبا سپہ گری رہا ہو، جس نے مملکتِ خداداد پاکستان کے پہلے پاکستانی سپہ سالار ہونے کا بلند ترین اعزاز حاصل کیا ہو، جس نے اپنے خون پسینے سے بَری فوج جیسے مقدس ادارے کی آبیاری کی ہو اور جو صرف اپنے فوجی عہدے کی بدولت صدرِ پاکستان کے بلند ترین مقام تک پہنچا ہو، وہ اپنے لڑکوں کو عین عالمِ شباب میں جب وہ تقریباً 25 یا 26 برس کے ہوں اور صرف 4، 5 سال کی سروس کی ہو فوج سے ریلیز کرکے نجی کاروبار میں لگادے، یہ ناقابل فہم ہے۔ والد کے صدرِ پاکستان بن جانے کے بعد اولاد کے لیے فوج سے وابستگی کیا مقدس پیشہ نہیں رہا تھا؟ صدرِ پاکستان کے بیٹوں کا فوج میں رہنا غیر محفوظ یا غیر منافع بخش ہوگیا تھا؟ ایک کیڈٹ کی تعلیم و تربیت پر حکومت کا زرِ کثیر خرچ ہوتا ہے

اور یہی وجہ ہے کہ عام حالات میں اتنے کم عرصے سروس کے بعد فوج سے ریلیز لینا تقریباً ناممکن ہوتا ہے خود تو جنرل کے عہدے سے فیلڈ مارشل بن گئے مگر اپنی اولاد کو فوج سے نکل جانے کی اجازت دی بلکہ نکال لیا۔ ان کے پریزیڈنٹ بننے کے بعد یہ پہلی لغزش تھی جو ان سے سرزد ہوئی اور جس کی انہیں بہت بھاری قیمت ادا کرنی پڑی۔ کیپٹن گوہر ایوب نے اپنے سسر لیفٹیننٹ جنرل حبیب اللہ خان کے ساتھ مل کر گندھارا انڈسٹریز کی بنیاد رکھی مگر کیپٹن اختر ایوب خان چھوٹے موٹے کاروبار پر قناعت کرتے رہے۔ ایوب خان کو البتہ اپنے بڑے لڑکے گوہر ایوب خان سے زیادہ توقعات وابستہ تھیں، اگرچہ گندھارا انڈسٹریز سے منسلک ہونے کی وجہ سے گوہر ایوب خان کا شمار سرمایہ داروں میں ہونے لگا تھا۔گندھارا موٹرز کے قیام کے ساتھ ہی حزبِ اختلاف کے ہاتھوں گویا ایوب خان کے خلاف ترپ کا پتا آگیا۔ حزبِ اختلاف نے اس معاملے کو ایوب خان کی جانب سے اقربا پروری کی بدترین مثال قرار دیا۔ حزبِ اختلاف کی رائے تھی کہ ایک سازش کے تحت جنرل موٹرز کو اس بات پر مجبور کیا گیا کہ وہ اپنا کاروبار
پاکستان سے سمیٹے۔ اس کے نتیجے میں انہیں کمپنی ایوب خان کے بیٹے اور اس کے سسر کو فروخت کرنی پڑی۔ ’ایوب خان اور محترمہ فاطمہ جناح کے درمیان صدارتی انتخاب کے نتائج کا اعلان 3 جنوری 1965ء کو کیا گیا۔ صدر ایوب کے حق میں 49 ہزار 647 ووٹ اور فاطمہ جناح کے حق میں 28 ہزار 345 ووٹوں کا اعلان ہوا۔ بظاہر ایوب خان 21 ہزار 302 ووٹوں کی اکثریت سے جیت گئے تھے۔فاطمہ جناح کو صرف دو شہروں میں اکثریت حاصل ہوئی تھی

، ایک ڈھاکہ اور دوسرا کراچی۔ رائے دہندگان کی مجموعی تعداد میں سے 99.62 فیصد ووٹ ڈالے گئے۔ مس جناح کی 36 فیصد کے مقابلے میں مجھے 63 فیصد کی اکثریت حاصل ہوئی۔انتخابات میں ڈھاکہ اور کراچی نے بھاری اکثریت سے صدر ایوب کے خلاف ووٹ ڈالے تھے۔ ڈھاکہ کے متعلق تو وہ خون کا گھونٹ پی کر رہ گئے لیکن کراچی میں ان کے فرزند دل پذیر گوہر ایوب نے اہلیانِ شہر کی گوشمالی کا بیڑا ٹھایا۔ چنانچہ 5 جنوری کو جشنِ فتح کے نام پر کراچی میں ایک بہت بڑا جلوس نکالا گیا۔ جس کی قیادت گوہر ایوب کے ہاتھ میں تھی۔ ان کے جلوس میں سڑکوں پر جیپوں، ویگنوں، بسوں اور رکشوں کی طویل قطار تھی۔’اس کا بدلہ چکانے کے لیے رات کے اندھیرے میں ان بستیوں پر شدید حملے کیے گئے۔ آگ لگائی گئی اور کافی جانی و مالی نقصان پہنچایا گیا۔اس نقصان کا صحیح اندازہ کسی کو نہیں، لیکن ’شہیدانِ لیاقت آباد‘ کی یاد منانے کے لیے ہر سال 5 جنوری کو ایک تقریب منائی جانے لگی۔ کئی روز تک کراچی میں خوف و ہراس طاری رہا اور پٹھانوں اور مہاجروں کے درمیان شدید کشیدگی پیدا ہوگئی

۔ اس زمانے میں ایک بار پھر ‘ہندو مسلم’ فسادات کے واقعات کی یاد تازہ ہوگئی۔ صدارتی انتخاب جیتنے کے فوراً بعد یہ صورتحال صدر ایوب کے نئے دورِ حکومت کے لیے صریحاً ایک شدید بدشگونی کی علامت تھی۔’گندھارا انڈسٹریز کے بعد گوہر ایوب کا یہ دوسرا شگوفہ تھا، جس نے صدر ایوب کی ساکھ پر بدنامی، بدسگالی، بدفالی اور نحوست کی گہری دھول اڑائی۔ اس کارنامے کے بعد اس فرزندِ دل پذیر نے مزید کل پرزے نکالنا شروع کیے جس سے بادی النظر میں یہ گمان گزرتا تھا کہ شاید صدر ایوب اس برخوردار کو اپنی ولی عہدی کے لیے تیار کر رہے ہیں۔ رفتہ رفتہ وہ کراچی کے نظم و نسق میں بڑی حد تک دخیل ہوگئے۔ کچھ عرصہ بعد جب انہیں کراچی مسلم لیگ کی رابطہ کمیٹی کا چیئرمین مقرر کیا گیا تو یہ افواہ پھیل گئی کہ اس تقرری کے پردے میں اس نوجوان کو اگلا صدارتی انتخاب لڑنے کی تربیت دی جارہی ہے۔کراچی میں ایسے لوگوں کی کمی نہ تھی جن کے دل میں گوہر ایوب کے خلاف غم و غصے کی آگ پہلے ہی سے سلگ رہی تھی۔

اس افواہ نے جلتی پر تیل کا کام کیا۔ اس صورتحال کا علم نہ صدر ایوب خان کو تھا نہ گوہر ایوب کو، کیونکہ بیشتر سرکاری اور سیاسی ادارے ان دونوں کی خوشامد و چاپلوسی میں لگے ہوئے تھے۔ اہلیانِ کراچی کی آشفتگی، برہمی اور جھلاہٹ کا بھانڈا اس وقت پھوٹا، جب رمضان المبارک کے پہلے جمعہ کے موقع پر گوہر ایوب نے کراچی کی میمن مسجد میں تقریر کرنے کی کوشش کی۔ اس پر مسجد میں زبردست ہنگامہ برپا ہوگیا۔ لوگوں نے تقریر سننے سے صاف انکار کردیا اور گوہر ایوب کو بمشکل پولیس کی حفاظت میں مسجد سے باہر لایا گیا۔ اس احتجاجی واقعہ نے ایک طرف تو گوہر ایوب کی بڑھتی ہوئی توقعات اور خواہشات کی بساط الٹ دی۔ دوسری جانب صدر ایوب کے اقتدار کی سیڑھی کے پائیدان کو بھی جھنجھوڑ کر رکھ دیا۔جولائی 1967ء میں مادرِ ملّت مس فاطمہ جناح کی وفات پر کراچی میں لاکھوں شہری ان کے جنازے میں شامل ہوئے۔ جلوس کے ایک حصے نے سیاسی رنگ اختیار کرلیا، کچھ نعرے حکومت کے خلاف بلند ہوئے، کچھ نعر ے حکومت کے خلاف بلند ہوئے کچھ نعروں میں ایوب خان مردہ باد کہا گیا۔ اس پر پولیس حرکت میں آئی اور لاٹھی
چارج اور آنسو گیس کے علاوہ گولیاں بھی چلائی گئیں۔ خون کی جو قدر مقدار بھی اس موقع پر بہائی گئی بلاشبہ اس نے صدر ایوب کے زوال کی راہ کو ہموار کرنے میں بدنصیبی کا چھڑکاؤ کیا۔ اس کے بعد پے در پے بدفال واقعات کا ایسا تانتا بندھ گیا جس نے صدر ایوب کے راج سنگھاس کو نہایت بری طرح جھنجوڑ کے رکھ دیا۔

اپنا تبصرہ بھیجیں