69

گومل یونیورسٹی آرٹس، سائنس اور ٹیکنالوجی کے شعبوں میں بین الاقوامی معیار کی تعلیم مہیا کر رہی ہے

یونیورسٹیاں پڑھانے اور سیکھنے، تعلیم، تحقیق اور ٹیکنالوجی میں رہنما کے طور پر اہم کردار ادا کرتی ہیں۔ تدریسی سرگرمیوں میں، یونیورسٹیاں اعلیٰ سطحی ملازمتوں کے لئے پیشہ ورانہ تربیت کے ساتھ ساتھ شخصیت کی نشوونما کے لئے بھی ضروری تعلیم فراہم کرتی ہیں۔ گومل یونیورسٹی یہ تمام تر ذمہ داریاں پوری کر رہی ہے۔

گومل یونیورسٹی 1974 میں قائم ہوئی اور اس کی افتتاحی تختی اس وقت کے وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو نے یوم مزدور یعنی یکم مئی کو رکھی.


گومل یونیورسٹی لگ بھگ 10 ہزار کنال کے وسیع رقبے پر پھیلی ہوئی ہے اور یہ رقبہ نواب اللہ نواز خان سدوزئی نے اپنی زرعی زمین میں سے وقف کیا۔ نواب صاحب اس یونیورسٹی کے پہلے وائس چانسلر منتخب ہوئے۔ اس وقت گومل یونیورسٹی کے 3 کیمپسز ہیں جن میں مین کیمپس، قائد اعظم یا سٹی کیمپس اور ٹانک کیمپس شامل ہیں۔
اگر ہم گومل یونیورسٹی کے اساتذہ کا ذکر کریں تو اس وقت 145 پی ایچ ڈی اور 70 ایم فل ریگولر اساتذہ شامل ہیں۔ ماسٹر ڈگری ہولڈر اور عارضی اساتذہ ان کے علاوہ ہیں۔


گومل یونیورسٹی جنوبی خیبر پختون خواہ کے شہر ڈیرہ اسماعیل خان میں قومی شاہراہ انڈس ہائی وے کے سنگم پر مین شہر سے تقریباً 14 کلو میٹر کے فاصلے پر واقع ہے۔


طلباء کا ذکر ہو تو یہاں نا صرف پاکستان بلکہ دنیا کے مختلف ممالک جن میں سوڈان، یمن، شام، اُردن، فلسطین وغیرہ کے طلباء زیر تعلیم ہیں۔


گومل یونیورسٹی آرٹس، سائنس اور ٹیکنالوجی کے تمام شعبوں میں بین الاقوامی معیار کی تعلیم مہیا کر رہی ہے۔
گومل یونیورسٹی پاکستان کی تیسری اور خیبر پختون خواہ (سابقہ نام NWFP ) کی پہلی یونیورسٹی ہے جو کہ ادویہ سازی کی تعلیم (فارماسیوٹیکل ایجوکیشن) دے رہی ہے۔ شعبہ ادویہ سازی گومل یونیورسٹی کا مایا ناز شعبہ ہے جو کہ اس یونیورسٹی کی پوری دنیا میں ایک خاص پہچان ہے۔


ماضی کے مقابلے میں آج کی گومل یونیورسٹی کافی بہتر ہے اور مسلسل ارتقائی منازل طے کر رہی ہے۔
یہ ایک حقیقت ہے کہ اخلاقی طور پر ہم زوال کا شکار ہیں اور مجموعی طور پر، معاشرے میں، سماجی اصول اور اقدار کمزور ہو رہے ہیں. سوشل میڈیا نے عام لوگوں اور خاص طور پر طلباء کو قطع نظر آداب کا انجیکشن لگا دیا ہے۔
سوشل میڈیا پر کبھی کبھی کچھ نا مناسب اور غیر مہذب ایکٹیویٹیز کے باعث گومل یونیورسٹی شدید تنقید کی زد میں آجاتی ہے۔

کوئی بھی ایک ایسے علاقے میں غیر مہذب کام کا دفاع نہیں کر سکتا جہاں روایات اور رسم و رواج براعظمی اور روایاتی ذائقے و انداز کا مطالبہ کر رہے ہوں۔ اگر ایسا کوئی واقعہ پیش آجائے تو مجاز اتھارٹی متعلقہ اشخاص کے خلاف سخت کارروائی شروع کردیتی ہے ۔


ماضی میں کچھ ایسے ناخوشگوار واقعات رونما ہو چکے ہیں تاہم کسی کو بھی یہ الزام نہیں لگانا چاہیے کہ گومل یونیورسٹی تباہی کی زد میں ہے۔


آج کی گومل یونیورسٹی زیادہ ترقی پسند اور تعمیری ہے۔ آج کل یونیورسٹیوں کی درجہ بندی 4 جینرشنز میں کی جاتی ہے اور الحمدللہ۔ گومل یونیورسٹی چوتھی اور لٹسٹ جینرشن میں داخل ہوچکی ہے۔
گومل یونیورسٹی تعلیمی، تحقیق، اختراع اور اب کمرشلائزیشن کے لئے مکمل طور پر فعال ہے۔
گومل یونیورسٹی میں انتہائی باصلاحیت فیکلٹی ممبران اور تھنک ٹینک موجود ہیں۔


آج کی گومل یونیورسٹی پورے ملک میں پراجیکٹس، فنڈز جیت کر محققین کو راغب کر رہی ہے۔ گومل یونیورسٹی کے پروفیسرز اور محققین پیٹنٹ فائلنگ کر رہے ہیں، ٹیکنالوجی ٹرانسفر کے لئے فنڈز جیت رہے ہیں اور انڈسٹریز کی ساتھ پروڈکٹس ڈیویلپمنٹ کے معاہدے سائن کر رہے ہیں۔


اگر ہم اپنی یونیورسٹی کا موازنہ کچھ بہت ترقی یافتہ یونیورسٹیوں سے کریں تو ہم یقیناً اور بجا طور پر یہ دعویٰ کر سکتے ہیں کہ ہمارے پاس ذہین طالب علم ہیں، اگرچہ کم اظہار خیال کرتے ہیں۔
پہلے زمانے میں بھی غیر قانونی، غیر مہذب اور غیر اخلاقی غلطیاں ہوتی تھیں لیکن سوشل میڈیا اور الیکٹرانک ڈیوائسز نہ ہونے کی وجہ سے منظر عام پر نہیں آتی تھیں۔


کسی ایک خاص واقعہ کی وجہ سے ہم مجموعی لحاظ سے پوری یونیورسٹی کو ترقی پذیر نہیں کہہ سکتے تاہم مستقبل میں ایسے واقعات کی روک تھام کیلئے جامع حکمت عملی اختیار کرنے کی ضرورت ہوگی۔
طلباء کی غیر نصابی سرگرمیوں کو دوام بخشنے کے لئے ضروری ہے کہ مثبت سوچ کے ساتھ مواقع میسر کریں۔ کسی بھی معاملے میں طلباء کی غیر ضروری ہمت نہ بندھائی جائے۔ طلباء کی ہر ضروری اور قطعی ضرورت کو مدنظر رکھا جائے۔

یسے درج بالا سطور میں ذکر کیا گیا کہ باقی کچھ یونیورسٹیوں کی طرح گومل یونیورسٹی بھی فنانشل مسائل کا شکار ہے تو اس یونیورسٹی کے ایک ملازم کی حیثیت سے میری کچھ تجاویز ہیں۔


ریٹائرڈ ملازمین کی پینشن کا مسئلہ کافی عرصہ سے چل رہا ہے، گورنر، وزیراعلٰی اور مولانا فضل الرحمن صاحب کا تعلق چونکہ اس شہر سے ہے لہذا وہ ایک خصوصی گرانٹ منظور کریں تاکہ یہ مسئلہ ہمیشہ کے لئے حل ہو سکے۔ اس کے علاوہ کچھ ایسا فنڈز دیں کہ جس سے یونیورسٹی کے لئے کچھ نئی بسسز خریدی جائیں۔ ایک دو نئے ہاسٹل تعمیر وقت کی اشد ضرورت ہے۔ اس قسم کی مالی مدد سے ان قائدین کی سیاسی قد میں اضافہ ہوگا اور مادر علمی کی خدمت کرکے طلباء کے لیے آسانی کا سبب بنے گا۔

خبر پر اظہار رائے کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں