117

گوجر خان میں سیاسی ہلچل عروج پر

پنجاب میں انتخابات کا بِگل بجتے ہی تمام سیاسی جماعتوں نے اپنے اپنے مہرے آگے بڑھا دئیے تھے۔ اس وقت تحصیل گوجرخان میں سیاسی منظر نامے پر سب سے مضبوط پوزیشن راجہ پرویز اشرف کی نظر آرہی تھی لیکن راجہ شوکت عزیز بھٹی اور راجہ جاوید اخلاص میں صلح ہوتے ہی منظر یکسر تبدیل ہوتا ہوا نظر آتا ہے۔ راجہ شوکت عزیز بھٹی کا ایک مضبوط گروپ اور حلقہ اثر ہے اس کا اظہار انہوں نے چہاری میں ایک جلسہ کر کے کردیا ہے۔ اس سے قبل پاکستان تحریک انصاف تنزل کی آخری حدوں کو چھو رہی تھی کہ ”چاچو“ کو آصف زرداری نے استعمال کرتے ہوئے مسلم لیگ ن کو چانوں شانے چِت کردیا۔ آصف زرداری نے منافع بخش وزارتیں اور مشاورتیں خود رکھ کے عوام کو جوابدہ پوزیشنیں مسلم لیگ ن کے حوالے کردیں۔ مہنگائی کا طوفان اور بڑھتی ہوئی بے روزگاری مسلم لیگ ن کے گلے کا طوق بن چکی ہیں ان حالات میں اگر الیکشن ہوجاتے تو مسلم لیگ ن کا وہی حشر ہوتا جس سے پاکستان تحریک انصاف بال بال بچ چکی ہے۔ مسلم لیگ ن نے تحریک انصاف کی بلا اپنے سر لے کر تحریک انصاف کو نئی زندگی بخش دی۔ اب صورت حال یہ ہے کہ پاکستان تحریک انصاف کے چئیرمین عمران خان آصف علی زرداری اور میاں شہباز شریف (چاچو) کو للکار رہے ہیں کہ الیکشن کراؤ لیکن پی ڈی ایم الیکشن سے فرار کے رستے ڈھونڈ رہی ہے۔ اس ساری سیاسی صورت حال کے اثرات پورے ملک کی طرح گوجرخان پر بھی مرتب ہورہے ہیں۔ کسی بھی شادی یا فوتگی کے اجتماع میں جہاں تحریک انصاف کے ممبران اسمبلی تنہا نظر آتے تھے اب انہیں نئی زندگی مل گئی ہے۔ چوہدری ساجد محمود اور چوہدری جاوید کوثر ایڈووکیٹ مزاج کے لحاظ سے انتہائی شریف اور صوم و صلوٰۃ کے پابند شخصیات ہیں۔ اپنے کیرئیر میں ان پر کوئی کرپشن کا دھبہ یا مالی سیکنڈل نہیں ہے۔ بڑے محتاط انداز میں انہوں نے وقت گزارا ہے۔ اب دوبارہ عوام میں مقبول ہوچکے ہیں۔ اگر پنجاب میں صوبائی اسمبلی کے انتخابات ہوجاتے تو بلامبالغہ انہیں شکست دینا پی ڈی ایم کے لیے مشکل ہی نہیں ناممکن تھا۔ راجہ پرویز اشرف نے پوری تحصیل کا سروے کرادیا ہرموضع میں گلیوں نالیوں اور سڑکوں کا سروے کرایا گیا اور یہ تاثر دیا گیا کہ جیسے ابھی ترقیاتی کام شروع ہونے والے ہیں۔ باخبر ذرائع اس وقت بھی یہ دعویٰ کرر ہے تھے کہ یہ محض خبروں میں رہنے کے ہتھکنڈے ہیں۔ حکومت کے پاس تنخواہوں کے پیسے نہیں ہیں تو ترقیاتی کام کہاں سے ہونگے؟ یہ سلسلہ ابھی تک جاری ہے اور راجہ پرویز اشرف پوری تحصیل میں کلین سویپ کرتے جارہے ہیں۔ پرانے مسلم لیگیوں کو بھی انہوں نے اپنے ساتھ ملا لیا ہے۔ تھوک کے حساب سے ممنوعہ بور کے اسلحہ کے پرمٹ جاری کرنے کے وعدے تو کہیں کسی کے بیٹے کو نوکری دینے کا وعدہ یا پھر کسی کے محلے یا گاؤں کی گلی پکی کرنے کا اور اس کے لیے شرط یہ کہ اپنے گاؤں میں راجہ پرویز اشرف کا جلسہ رکھ کر پورے علاقے کے سامنے حمایت کااعلان۔ بعض لوگ مذاق بھی بنا رہے ہیں کہ راجہ پرویز اشرف کے پاس جاؤ اور اپنے گاؤں کے لیے ائیرپورٹ کا مطالبہ کرو تو اس کی منظوری بھی دے دی جاتی ہے۔ باخبر حلقے کہتے ہیں کہ تھوک کے حساب سے پیپلز پارٹی میں شامل ہونے والوں کو انتخابات (اگر ہوئے تو)کے بعد پتہ چلے گا کہ ان کے ساتھ کتنا بڑا ہاتھ ہوگیا ہے لیکن اس وقت وہ کہیں کے بھی نہیں رہیں گے۔مذہبی جماعتوں کے پاس روائتی حکمرانوں جماعتوں کے ہاتھوں ستائے ہوئے عوام میں جگہ بنانے کا سنہری موقع ہے۔ تحریک لبیک اور جماعت اسلامی اپوزیشن کا کردار ادا کررہی ہیں۔ اگر انہوں نے عوام میں یہ شعور بیدار کردیا کہ ملک کو بحرانوں سے وہی نکال سکتے ہیں جن کے دامن کرپشن سے پاک اور امانت و دیانت کے پیکر ہوں۔ توشہ خانہ کی کرپشن میں لتھڑے لوگ یا وہ قیادت جن کی اولادیں اور کاروبار امریکہ، برطانیہ یا دوبئی میں ہیں وہ عوام کے خیر خواہ نہیں ہوسکتے۔ وہ لوگ جو حکمرانی کا دور ختم ہوتے ہی بیرون ملک پناہ لے لیتے ہیں وہ ملک کے کیسے خیر خواہ ہوسکتے ہیں۔ اگر مذہبی جماعتیں عوام کو متحرک کرنے میں کامیاب ہوجاتی ہیں تو روائتی کرپٹ حکمرانوںسے نجات کی کوئی راہ نکل سکتی ہے ورنہ وہی باپ کے بعد بیٹا اور اس کے بعد اس کا بیٹا والا سلسلہ چلتا رہے گا۔

خبر پر اظہار رائے کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں