گوجرخان ہوا پانی پانی!عوامی نمائندے فوٹو سیشن کرانے تک نہ آئے

عبدالستارنیازی/قارئین کرام ! یہ بوسیدہ اور گلا سڑا نظام اس ملک کو کبھی تبدیلی نہیں دے سکتا اور یہ مایوسی نہیں بلکہ وہ حقیقت ہے جس کو اب تسلیم کرنا ضروری ہے ، تبدیلی حکومت کو اقتدار میں آئے دو سال مکمل ہو چکے ہیں مگر حالات جوں کے توں ہیں اور تبدیلی سرکار کے نمائندے اور کارندے یہ کہتے ہوئے پائے جاتے ہیں کہ چالیس سال سے گند پڑا ہوا ہے اب یہ دو سال میں تو صاف نہیں ہوسکتا، میرا ماننا ہے کہ عمران خان اپنی کابینہ سمیت چالیس سال بھی حاکم رہے تو بھی وہ کچھ نہیں کر سکتا، کیونکہ یہ نظام اسے کچھ نہیں کرنے دے گا ، وہی باریاں لگانے والے اس حکومت میں بھی موجود ہیں جو اسی نظام کے محافظ ہیں تو تبدیلی خاک آئے گی ؟ پورے ملک اور بالخصوص بڑے صوبے پنجاب کی حالت دن بدن بدتر ہوتی جارہی ہے ، لاءاینڈ آرڈر کی صورتحال دیکھ لیں یا محکمہ مال کی حالت، پولیس کا محکمہ دیکھ لیں یا جنگلات کا ، صفائی کی صورتحال ہو یا صحت کی ، ہر جگہ کرپشن در کرپشن اور روز بروز تنزلی ہوتی دکھائی دیتی ہے، گوجرخان پنجاب کی سب سے بڑی نہ سہی مگر بڑی اور اہم تحصیل ضرور ہے اور یہاں کے مسائل بھی بہت بڑے بڑے ہیں، ہر سال بارشیں ہوتی ہیں اور ”جب بارش ہوتا ہے تو پانی بھی آتاہے “اور انتظامیہ کی نااہلی اور نالائقی کے باعث یہ پانی ہر سال عوام کا لاکھوں کا نقصان کر کے چلا جاتاہے، منتخب نمائندوں کی کارکردگی فوٹوسیشن سے آگے نہ بڑھ سکی تو ان سے مزید کیا توقع رکھی جا سکتی ہے ؟ گوجرخان شہرکی رہائشی آبادی کے وسط سے گزرنے والا بڑا نالہ آج تک باضابطہ اور مکمل صاف نہ ہوسکا، اگر صفائی کی جاتی ہے تو صرف خانہ پُری کی جاتی ہے ، گزشتہ سال اس نالے کی صفائی کیلئے 2کروڑ سے زائدکی رقم مختص کی گئی اور موقع پر مشینری بھی لگائی گئی مگر شاید مشینری والوں کو 2لاکھ روپے دیئے گئے تھے اس لئے وہ چند دن صفائی کر کے رفوچکر ہوگئے اور سال گزر گیا ، اب وہ 2کروڑ کی رقم کس نے کھائی ؟ کہاں گئی؟ صفائی کیوں نہیں ہوئی؟ یہ بہت سارے سوالات منتخب نمائندوں ، انتظامی اداروں سے جواب طلب ہیں جن کا جواب نہ گزشتہ ادوار میں کوئی لے سکا، نہ اب لے سکتاہے کیونکہ منتخب نمائندے کٹھ پتلیاں ہیں اور ان میں سوال کرنے کی جرا¿ت نہیں ہے ، یہ صرف فوٹوسیشن کے رسیا ہیں، دو دن مسلسل بارش ہوتی رہی اور پانی لوگوں کے گھروں میں داخل ہوگیا ، دکانوں میں داخل ہو گیا ، لوگوں کا فرنیچر ، سامان ، الیکٹرونکس اشیاءخراب ہو گئیں ، لاکھوں کا نقصان ہوگیا ، شہر کے مختلف بازاروں شاپنگ سنٹر، مین بازار، حلوائی گلی، باڑہ مارکیٹ ،حیاتسر روڈ ، سروس روڈپر کئی کئی فٹ پانی کھڑا ہونے سے تاجروں کو شدید مشکلات کا سامنا رہا، یہاں ن لیگ کے دور اقتدار میں چیئرمین بلدیہ نے سیوریج لائنیں ڈلوائی تھیں جن کا خرچہ کروڑوں میں آیا تھا مگر حالت جوں کی توں ہے، تبدیلی سرکار صرف ان منصوبوں کا آڈٹ ہی کرالے ، مگر نہیں، کیونکہ ”کُتی چوراں نال رلی ہوئی اے “۔ گوجرخان کی تاجر کمیونٹی اور عوام پانی میں ڈوبی رہی مگر فوٹوسیشن والے عوام کو کہیں نظر نہ آئے ، البتہ تیسرے دن وہ پوری آب و تاب کیساتھ فوٹوسیشن کراتے پائے گئے اور بلے بلے جی واہ واہ ہو گئی ، عوامی نمائندے عوام میں آگئے، اس عوام کو ایسے نمائندوں کی ضرورت ہے جو ان کیساتھ یہی سلوک کریں اور اس نظام کو یہی عوام اور اسی کے منتخب کرپٹ نمائندے تحفظ دیتے ہیں اس لئے یہاں تبدیلی صرف خواب ہے، ابھی دو سال قبل کی بات ہے کہ گورنر پنجاب چوہدری محمد سرور نے گورنر کا حلف اٹھانے سے قبل اگست 2018ءمیں گوجرخان کا دورہ ایک سیاسی و سماجی شخصیت کی دعوت پر کیا تھا اور نجی تقریب میں خطاب کرتے ہوئے کہا تھا کہ نظام میں انقلابی تبدیلیاں لائیں گے ، پنجاب کے لوگوں کی محرومیاں دور کر یں گے ، پولیس اور محکمہ مال کا قبلہ درست کریں گے غیرجانبدارانہ انکوائریاں ہوں گی اور اب جرم ثابت ہونے پر معطل نہیں برطرف کیا جائے گا ، اس کے علاوہ انہوں نے پولیس کلچر اور محکمہ مال کے کلچر کو تبدیل کرنے کا بھی وعدہ کیا تھا مگر دو سال گزرنے کے باوجود ان کے کسی دعوے اور وعدے کی عملی شکل عوام کے سامنے نہ آسکی، شاید انہیں تبدیلی حکومت میں گورنری کرتے ہوئے معلوم پڑ گیا ہے کہ نظام وہی پرانا ہے اور وہی چلے گا، اس لئے وہ بھی تنخواہ ، مراعات، پروٹوکول کے عادی ہوگئے ہیں اور ان کی اہمیت بھی ایک دستخط کرنے والے کی سی ہے اس سے زیادہ گورنر کی حیثیت کیا ہوتی ہے ؟ یہ نظام کرپٹ تھا کرپٹ ہے اور کرپٹ رہے گا اور اس نظام میں تبدیلی کا صرف خواب ہی دیکھا جاسکتاہے۔ اللہ سب کا حامی و ناصر ہو۔ والسلام

اپنا تبصرہ بھیجیں