گوجرخان کے منی ڈیم موت بانٹنے لگے

عبدالستار نیازی

گرمی اور روزہ کی حالت میں ہر آدمی کی خواہش ہوتی ہے کہ ٹھنڈے پانی سے غسل کرے ، تاکہ اس کا روزہ بھی ٹھنڈا ہواور گرمی بھی دور ہو، اس گرمی کو دور کرنے کے بہت سارے جدید طریقے متعارف ہوچکے ہیں، جن میں ایئرکنڈیشنڈ گاڑیاں، ایئرکنڈیشنڈ دفاتر اور ایئرکنڈیشنڈ ڈرائنگ رومز قابل ذکر ہیں ، لیکن چونکہ مزدور طبقہ بھاری بل دینے کی استطاعت نہیں رکھتا، مزدور طبقہ دن بھر گرمی میں کام کرتا ہے ، مزدور طبقہ رات کو بجلی کی سہولت ہونے پر پنکھا لگا کر اور بجلی بند ہونے کی صورت میں مچھر دانی لگا کر سوتا ہے اس لئے اسے جدید ترین سہولیات میسر نہیں ہوتیں، مزدور پیشہ طبقہ کو اس گومگو کی کیفیت میں ٹھنڈے پانی کا دستیاب ہونا کسی نعمت خداوندی سے کم نہیں ہوتا، اچھے گھرانوں سے تعلق رکھنے والے شرارتی لڑکے بھی خواہ مخواہ نہانے کیلئے مختلف ڈیموں کا رُخ کرلیتے ہیں حالانکہ ان کے گھر سہولیات دستیاب ہوتی ہیں، ایسے میں ڈیموں کی ناقص حکمت عملی سے تعمیر شہریوں کوزندگیوں سے محروم کردیتی ہے، میں اس حوالے سے گوجرخان کے دو ڈیموں کا ذکر کرنا ضروری سمجھتاہوں، ایک کو ڈونگی ڈیم کے نام سے جانا جاتاہے جبکہ دوسرا اوگاہون ڈیم کے نام سے مشہور ہے، دونوں ڈیموں پر کسی قسم کے حفاظتی انتظامات موجود نہ ہیں، کسی حادثے کی صورت میں کئی کئی گھنٹے ریسکیو ٹیموں کا انتظار کیاجاتاہے، ڈونگی ڈیم ایک دور میں تاریخی جگہ ہوتی تھی جس کا وزٹ کرنے علاقہ بھر کے لوگ مختلف تہواروں پر جایا کرتے تھے ، وہاں پر فیملی پارٹیاں کرتے تھے، لیکن رفتہ رفتہ محکمہ کی عدم توجہ کے باعث ڈیم کھنڈرات کا منظر پیش کرنے لگا اور اب کسی کا اس جانب جانے کا دل نہیں کرتا، گزشتہ سال بھی دو تین جوان اس ڈیم میں ڈوب کر جان کی بازی ہار گئے تھے، اوگاہون ڈیم بھی اندازاً پانچ سے سات سال قبل تعمیر کیا گیا ، اس کی تعمیر پر اربوں روپے کی لاگت آئی، ڈیم کو جانے والا راستہ شروع دن سے خستہ حال ہے جس کی تعمیر کے بارے میں محکمہ انہار نے کوئی توجہ نہ دی اور اس جانب آبادی کو بھی شدید مشکلات درپیش ہیں، رہی بات ڈیم کی تو ناقص حکمت عملی کے تحت بننے والے اس ڈیم نے کئی قیمتیں جانیں اپنے اندر ڈبو کر ضائع کر دیں، معاملہ کچھ یوں ہے کہ ڈیم کے اندر پانی جمع ہوتا رہا اور کئی ایکڑ رقبہ اس ڈیم کے پانی نے اپنے اندر سمو لیا ، ڈیم کے اندر بڑے بڑے درخت موجود ہیں جن میں کیکر اور بیری کے درخت قابل ذکر ہیں، درختوں کی کٹائی نہ کرنے کے باعث بڑے بڑے ماہر تیراک بھی اس ڈیم میں بے بس ہوجاتے ہیں، گزشتہ سال، اس سے پچھلے سال اور اس موجودہ سال اس ڈیم پر نہانے کیلئے جانے والے درجنوں افراد موت کی وادی میں جاچکے ہیں، معاملہ پیچیدہ نہیں بناتے صاف لفظوں میں بیان کرتے ہیں کہ چھلانگ لگانے والے شخص کو یہ نہیں معلوم ہوتا کہ اس کے نیچے درخت ہیں جن میں میرے کپڑے پھنس جائیں گے اور میں واپس اوپر نہیں آسکوں گااور ہمیشہ کیلئے دنیا چھوڑ جاﺅں گا، اس میں محکمہ انہار اور ڈیمز انتظامیہ کی سراسر غفلت اور لاپرواہی کارفرماہے، گزشتہ دنوں بھی ایک 18/19 سال کا جوان جو کہ ملتان کا رہائشی تھا ، نہانے کیلئے ڈیم میں اُترا اور پھر واپس باہر نہ آیا، ریسکیو ٹیموں نے زور لگایا لیکن کامیابی نہ ملی اور پھر نیوی کے ماہر غوطہ خوروں نے محنت اور مہارت کے ساتھ اس کی لاش کو 16گھنٹے بعد نکالا ، اوگاہون ڈیم میں بھی کوئی حفاظتی انتظامات موجود نہ ہیں، کسی کی زندگی بچانے کیلئے کوئی عملہ موجود نہ ہے اور نہ ہی موٹر والی کوئی کشتی ہے جو آناً فاناً ڈوبتے شخص کو نکالنے کیلئے پہنچے ، اس ساری صورتحال میں ڈپٹی کمشنر راولپنڈی کی ذمہ داری بنتی ہے کہ مناسب انتظامات ہونے تک ڈیمز میں نہانے پر پابندی عائد کریں کیونکہ نہانے سے بہت زیادہ قیمتی انسانی جان ہے ، انسانی جانوں کو ضیاع کو روکنا ہے تو گوجرخان کے ڈیموں میں نہانے پر پابندی لگائے جائے اور یہی عوامی مطالبہ بھی ہے، دوسری جانب چونکہ ہر سال رمضان المبارک کے مبارک مہینے میں کچھ مبارک شخصیات سرگرم رہتی ہیں جن کو منافع خور اور ذخیرہ اندوز کہاجاتاہے ، منڈیوں میں چیک اینڈ بیلنس نہ ہونے کی وجہ سے دکانداروں کو جس حساب سے مہنگا مال دستیاب ہوتاہے وہ اسی حساب سے اپنا منافع لگا کر آگے گاہکوں کو فروخت کرتے ہیں، دکاندار بھی ناجائز طور پر منافع خوری کرتے ہیں جن کو گاہے بگاہے متعلقہ پرائس کنٹرول مجسٹریٹ اور اسسٹنٹ کمشنر جرمانے کرتے ہیں ، انسان کی فطرت ہے کہ اس نے نقصان تو پورا کرنا ہی ہوتاہے ، اس لئے وہ آئندہ چند یوم مزید منافع خوری کر کے عوام کو چونا لگاکر اس جرمانے کا حساب برابر کرلیتے ہیں، ضرورت اس امر کی ہے کہ منڈیوں میں آنے والے مال کی قیمتوں کا تعین کیاجائے تاکہ مہنگائی پر کنٹرول ہواور سبزی و فروٹ کم از کم عوام کی پہنچ میں رہے ، کمیشن ایجنٹس ، منافع خور اور ذخیرہ اندوز رمضان المبارک کے بابرکت مہینے میں دونوں ہاتھوں سے عوام کو لوٹنے میں مصروف ہیں جن کا احتساب کرنا حکومت وقت کی اہم ذمہ دار ی ہے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں