گوجرخان کے مسائل نظر انداز،تھانہ کچہری کو فوقیت

معزز قارئین کرام! کسی منتخب نمائندے، سرکاری افسر و ملازم پہ تنقید و تعریف اس کی کارکردگی پر منحصر ہوتی ہے، راقم کی کوشش ہمیشہ سے یہی رہی ہے کہ تنقید ذاتی حیثیت میں نہ ہو بلکہ ذمہ داری کو ادا کرنے اور نہ کرنے، غفلت برتنے پہ لکھا جائے، جو قارئین میری تحریریں مستقل پڑھتے ہیں انہیں یقیناً یاد ہو گا کہ اسسٹنٹ کمشنر غلام مصطفیٰ کے سیاسی تبادلے، حرا رضوان کے تبادلے، غلام سرور کی تعیناتی اور سیاسی تبادلے، غلام عباس کی تعیناتی و کارکردگی پہ میں نے لکھا اور اس کو عوامی سطح پہ سراہا گیا، ہر اسسٹنٹ کمشنر، ڈی ایس پی، ایس ایچ او کے ٹرانسفر کے بعد اس کی مجموعی کارکردگی پہ لکھنا میں قلم کی زکوٰۃ سمجھتا ہوں، ایس ایچ او میاں عمران عباس سے اب تک ایس ایچ اوز کی کارکردگی پہ بھی نے متعدد بار لکھا۔ حسب سابق 14 اگست کے دن پرچم کشائی کی تقریب میونسپل کمیٹی میں ہوئی، جس میں ایم پی اے چوہدری جاوید کوثر، اسسٹنٹ کمشنر خضر حیات بھٹی نے شرکت کی، حسب معمول سیاسی کاروباری شخصیات اور ملازمین کی موجودگی میں سیاسی باتیں شروع ہو گئیں، تو ایم پی اے نے حاضرین کے علم میں اضافہ کرتے ہوئے بتایا کہ تھانہ گوجرخان کا اے ایس آئی میری بات نہیں مان رہا اور کہتا ہے کہ ایم پی اے کون ہے اور اسسٹنٹ کمشنر کون ہے؟؟ جس پہ میرے سمیت تمام حاضرین اور سابق ایم پی اے طارق کیانی نے حیرانگی کا اظہار کیا کہ ایک اے ایس آئی اور وہ ایم پی اے کی بات ”میرٹ پہ” بھی نہ مانے، اس کے بعد ایم پی اے موصوف گویا ہوئے کہ میں کسی ایسے شخص کو یہاں نہیں رہنے دوں گا جو عوام کے کام نہ کرے ”یعنی میری بات نہ مانے” مجھے ایس ایچ او عمران عباس، اسسٹنٹ کمشنر غلام مصطفیٰ، اسسٹنٹ کمشنر غلام سرور اور اسسٹنٹ کمشنر غلام عباس کے تبادلے یاد آگئے اور میں دل ہی دل میں مسکرایا۔قارئین کرام! گوجرخان میں ابھی موجودہ اسسٹنٹ کمشنر غلام عباس ہرل ہیں جن کا تبادلہ سیاسی بنیادوں پہ عشرہ محرم کے دوران کیا گیا اور کرایا گیا، حالانکہ پورے پنجاب بلکہ پورے پاکستان میں عشرہ محرم کے دوران کسی ملازم یا افسر کا تبادلہ نہیں ہوتا اور اس کو سیکورٹی رسک سمجھا جاتا ہے، لیکن غلام عباس ہرل جیسا فرض شناس افسر موجودہ MPA کی آنکھوں میں ایسے چُبھ رہا تھا کہ عشرہ محرم کے دوران تبادلے کا نوٹیفکیشن جاری ہو گیا، انکی جگہ خضر حیات بھٹی کو یہاں تعینات کیا گیا، 16 اگست کو ایک اور نوٹیفکیشن آ گیا جس میں اسسٹنٹ کمشنر مہر غلام عباس ہرل کی تعیناتی دوبارہ گوجرخان کر دی گئی، جس پہ ایم پی اے کو بڑی تشویش لاحق ہوئی کہ یہ کیسے ہو گیا، ذرائع کے مطابق ایم پی اے موصوف تین دن تک لاہور میں مقیم رہ کر مختلف سفارشیں کراتے رہے کہ غلام عباس کے چارج کو روکا جائے اور اسے یہاں تعینات نہ ہونے دیا جائے، جس پہ ان کو کسی جانب سے خاطر خواہ جواب نہ مل پایا، ”مبینہ طور پر” معلوم ہوا ہے کہ ایم پی اے نے اسمبلی سے استعفیٰ دینے کی دھمکی بھی دی جس کو خاطر میں نہیں لایا گیا اور جمعرات کے روز مہر غلام عباس ہرل نے گوجرخان میں اپنی نشست سنبھال لی۔گوجرخان کی عوام، تاجر، سول سوسائٹی اور میڈیا انکی دوبارہ تعیناتی کو خوش آئند قرار دے رہے ہیں کیونکہ انکی سابقہ تعیناتی میں گراں فروشوں، تجاوزات مافیا، قبضہ مافیا کیخلاف سخت کارروائیاں ہوئیں اور اب بھی امید کی جا رہی ہے کہ عام سائلین کی آواز کو اسی طرح سُنا اور مسائل کو حل کیا جائے گادوسری جانب تھانہ گوجرخان میں تعینات سب انسپکٹر ایس ایچ او بلاول حسین، ان کے ماتحت اسسٹنٹ سب انسپکٹرز، سب انسپکٹرز، ہیڈ کانسٹیبل، کانسٹیبل سبھی منشیات فروشوں، ڈکیتوں، چوروں، راہزنوں، موبائل چھیننے والے گروہوں کے سامنے بے بس دکھائی دے رہے ہیں، لاقانونیت کی انتہاء ہو چکی ہے مگر نہ پولیس کے ضلعی افسران کی آنکھیں کھل رہی ہیں اور نہ گوجرخان کے منتخب نمائندے جاگ رہے ہیں، ایم پی اے موصوف کو صرف 25 مئی کے دن جی ٹی روڈ سے انکو پولیس کی جانب سے گرفتار کرنے کا دُکھ ہے مگر وہ ابھی تک ایس ایچ او اور ماتحت ملازمین کا یہاں سے ٹرانسفر یا معطلی نہیں کرا سکے، انہیں عوام کے لُٹنے کا کوئی دکھ نہیں، انہیں بس اپنی گرفتاری نظر آتی ہے حالانکہ اس گرفتاری سے وہ ”جاکت” لفظ کی وجہ سے کافی مشہور ہوئے اور صرف نیشنل نہیں بلکہ انٹرنیشنل سطح پہ انکی ویڈیو کو دیکھا گیا۔ قارئین کرام! جس منتخب نمائندے کی ایک اے ایس آئی اور سیکرٹری بات نہ سُنتا ہو اسے احتجاجاً استعفیٰ دے دینا چاہیے اور موصوف کے ساتھ ایسے کئی واقعات رونما یو چکے ہیں اور بدلے میں موصوف صرف تبادلہ تبادلہ کھیل رہے ہیں، عوامی نمائندگی انکے بس کی بات نہیں اور نہ اس حق نمائندگی کو وہ پورا کرنے کی ہوزیشن میں ہیں اور اس کی عملی مثال 14 اگست 2021 اور 14 اگست 2022 کے واقعات ہیں جہاں میرے علاوہ دیگر کئی چشم دید گواہ موجود تھے۔ گزشتہ سال 14 اگست کے موقع پر گلیانہ پی ٹی آئیکے سرگرم رہنما نے گلیانہ روڈ سے متعلق بات کی تھی جس پر ایم پی اے چوہدری جاوید کوثر نے جواب دیا تھا کہ اس کی تعمیر کیلئے جلد منظوری مل جائے گی مگر ایک سال گزر گیا اس کا کچھ نہ ہوا، چوہدری جاوید کوثر کے ہمہ وقت ساتھ ہونے والے فیض نمبردار نے بھی گزشتہ سال ایم پی اے موصوف کی سب کے سامنے کلاس لی تھی، گزشتہ سال سٹیڈیم کی دیوار کی بازگشت سنائی دی تھی جس پہ اسسٹنٹ کمشنر غلام سرور نے اصولی موقف اختیار کیا تھا کہ میں کوئی غیرقانونی کام نہیں کروں گا اور میرٹ پر اور کاغذات کے مطابق معاملات دیکھے جائیں گے اور ایک سال بعد بھی آج وہ دیوار سٹیڈیم کے درمیان قائم ہے۔ معزز قارئین کرام! جس طرح ایس ایچ او عمران عباس شہید، اسسٹنٹ کمشنر غلام مصطفیٰ، غلام سرور کے تبادلوں کے پیچھے منتخب نمائندے کا ہاتھ کارفرما تھا اسی طرح موجودہ اسسٹنٹ کمشنر کو یہاں سے ٹرانسفر کرانے کے لیے ایڑی چوٹی کا زور لگایا گیا، مگر عمران ریاض کے بقول ”ٹکر کے لوگ” ان کو ٹکر گئے، لینے کے دینے پڑ گئے اور اسسٹنٹ کمشنر غلام عباس ہرل نے چند دن بعد دوبارہ اپنا تبادلہ گوجرخان کرا کر منتخب نمائندوں کو چیلنج دیا ہے کہ ”روک سکو تو روک لو” اب دو دن، ایک ہفتے بعد، ایک ماہ بعد بھی تبادلہ ہو جائے تو اسسٹنٹ کمشنر غلام عباس ہرل کو کوئی پرواہ نہیں کیونکہ اس نے ثابت کر دیا کہ نتھ کیسے ڈالی جاتی ہے موجودہ تبدیلی حکومت میں اس طرح بھونڈے انداز میں کام کرنے والے افسر کا تبادلہ کرانا کوئی اچنبھے کی بات نہیں، چار سالہ دور میں سب تبادلے اسی طرح کئے گئے جو انتہائی کم ظرفی اور نچلی سطح کی سوچ کی عکاس ہے۔ قارئین کرام! میرا یہ عزم ہے کہ میرے شہر اور تحصیل کی بہتری کیلئے جو کام کرے گا اس کا بھرپور ساتھ دوں گا اور جو اس شہر کیساتھ بھلائی کا ارادہ نہیں رکھتا وہ سرکاری افسر ہو، ملازم ہو، منتخب نمائندہ ہو یا سیاسی کارکن، میں اس کا مخالف ہوں اور رہوں گا ۔ان شاء اللہ۔ والسلام

اپنا تبصرہ بھیجیں