گوجرخان پی پی9،ن لیگ کے ٹکٹ کیلئے لیگی امیداروں میں سرد جنگ کا آغاز

گوجرخان (اخلاق احمد راجہ‘ نمائندہ پنڈی پوسٹ)پنجاب میں مختلف حلقوں سے مسلم لیگ ن کے امیدواروں کی آپس میں پارٹی ٹکٹوں کیلئے جنگ جاری ہے اسی جنگ کی لپیٹ میں حلقہ این اے 52گوجرخان بھی شامل ہے مسلم لیگ ن کے امیدوار قومی اسمبلی راجہ جاوید اخلاص کو پارٹی ٹکٹ کا اشارہ مل چکا ہے لیکن پارٹی کی جانب سے تاحال باقاعدہ امیدوار فائنل نہیں کئے جا سکے حلقہ این اے 52 گوجرخان سے پی پی 8 اور پی پی 9 میں صوبائی اسمبلی کے امیدوار بھی تاحال فائنل نہ ہو سکے ہیں پی پی 8 سے مسلم لیگ ن کے ٹکٹ کے امیدوار سابق صوبائی وزیر چوہدری محمد ریاض کے بیٹے خرم زمان اور سابق ایم پی اے افتخار احمد وارثی کے درمیان جنگ جاری ہے دونوں امیدواروں میں سے کوئی بھی پیچھے ہٹنے کو تیار نہیں ہے پی پی 8 سے مسلم لیگ ن کے مدمقابل پیپلز پارٹی کے راجہ خرم پرویز سابق وزیراعظم راجہ پرویز اشرف کے فرزند ہیں اور وہ بھرپور تیاری کے ساتھ میدان میں موجود ہیں مسلم لیگ ن کے امیدوار خرم زمان اور افتخار احمد وارثی کی آپس کی لڑائی کا براہ راست فائدہ پیپلز پارٹی کے راجہ خرم پرویز کو ہو گا اور یوں پی پی 8سے مسلم لیگ ن صوبائی اسمبلی کی نشست کھو بیٹھے گی ایسی ہی صورتحال گوجرخان سے مسلم لیگ ن کی پی پی 9 میں ہے ن لیگ کے ٹکٹ کے امیدواروں میں سابق ایم پی اے شوکت عزیز بھٹی، سابق ٹکٹ ہولڈر راجہ حمید ایڈووکیٹ، نوجوان متحرک کارکن قاضی عبدالوقار کاظمی،سابق چیرمین یو سی دولتالہ سید قلب عباس شاہ،سابق چیرمین یو سی لوہدرہ نوید بھٹی اور سابق چیئرمین یو سی کرنب الیاس یحییٰ فیض شامل ہیں پی پی9 میں مسلم لیگ ن دو دھڑوں میں تقسیم نظر آتی ہے ن لیگ کا ایک دھڑا راجہ حمید ایڈووکیٹ،قاضی عبدالوقار کاظمی،راجہ نوید بھٹی،سید قلب عباس، یحییٰ فیض پر مشتمل ہے دوسرے دھڑے میں شوکت بھٹی ہے جس کو اندرون خانہ راجہ جاوید اخلاص کی حمایت حاصل ہے شوکت بھٹی نے حلقہ میں باقاعدہ راجہ جاوید اخلاص کے ساتھ الیکشن کمپین کا آغاز کر دیا ہے جبکہ باقی 5امیدوار ایک پیج پر نظرِ آتے ہیں بات اگر زمینی حقائق کی کی جائے تو پارٹی میں اختلاف کی وجہ 2018کے الیکشن میں جب راجہ حمید ایڈووکیٹ کو پی پی 9 سے پارٹی ٹکٹ کے لیے نامزد کیا گیا تو پارٹی ڈسپلن کو برقرار نہ رکھتے ہوئے راجہ حمید ایڈووکیٹ کی حمایت کے بجائے شوکت بھٹی نے جعلی ڈگری کیس میں تاحیات نااہلی کے باوجود اپنے حقیقی بھائی فیصل بھٹی کو پی پی 9 سے آزاد حیثیت میں الیکشن لڑانے کی ٹھان لی اور یوں مسلم لیگ ن کا ووٹ تقسیم ہو گیا اور راجہ حمید ایڈووکیٹ کو پی پی 9 سے شکست کا سامنا ہوا

جس کا براہ راست نقصان راجہ جاوید اخلاص کو ہار کی صورت میں ہوااس کے برعکس 2013میں شوکت بھٹی کو پارٹی ٹکٹ کے لیے نامزد کیا گیا تو راجہ حمید ایڈووکیٹ نے نہ صرف کاغذات نامزدگی واپس لئے بلکے حلقہ میں شوکت بھٹی کی بھرپور انداز میں الیکشن کمپین چلائی اور شوکت بھٹی صوبائی اسمبلی کی نشست پر کامیابی سے ہم کنار ہوئے نئی حلقہ بندیوں کے تحت شوکت بھٹی کی آبائی یونین کونسل سمیت تین پٹوار سرکل گھنگریلہ پٹوار سرکل،ماندر پٹوار سرکل اور سوڑہ پٹوار سرکل کو پی پی 9 سے پی پی 8میں شامل کر دیا گیا ہے جو تقریباً 14000سے زائد ووٹ پر مشتمل ہے یہ بھی شوکت بھٹی کے لئے ایک بڑا نقصان ثابت ہو گا اس کے برعکس نے پی پی 9 میں نء شامل ہونے والی پانچ قانوگوئیں ہیں جن میں لودھراح،بگا شیخاں،ساگری، مغل اور تخت پڑی قانوگوئی شامل ہیں الیکشن کمیش کے ریکارڈ کے مطابق ان پانچ قانوگوئی میں 65000سے زائد ووٹ ہیں جو پی پی 9 میں شامل کیں گئیں ہیں یہاں سے مسلم لیگ ن کے ٹکٹ کے امیدوار اور سابق چیئرمین یو سی لو ہدرہ راجہ نوید بھٹی ہیں جو پی پی 9 میں شاملِ ہونے والی پانچ نئی قانونگوئی میں واحد امیدوار ہیں یہاں سے کسی دوسری سیاسی جماعت کا کوئی بھی الیکشن میں حصہ نہیں لے رہا راجہ شوکت بھٹی اس قبل دو با ایم پی اے رہ چکے ہیں 2008میں مسلم لیگ ق کے ٹکٹ پر اور دوسری بار 2013میں مسلم لیگ ن کے ٹکٹ پر ایم پی اے رہے 2018میں جعلی ڈگری کیس میں تاحیات نااہلی کی وجہ سے الیکشن لڑنے کے اہل نہیں تھے تو شوکت بھٹی نے مسلم لیگ ن سے ٹکٹ نہ ملنے پر اپنے بھائی فیصل بھٹی کو آزاد حیثیت میں الیکشن لڑا کر تقریباً 22000 ہزار ووٹ حاصل کیے اور مسلم لیگ ن کے ٹکٹ ہولڈر راجہ حمید ایڈووکیٹ صرف 30000ہزار ووٹ حاصل کر سکے اور یوں مسلم لیگ ن کو حلقہ پی پی 9 سے بدترین شکست کا سامنا ہوا بات اگر راجہ حمید کی کی جائے تو راجہ حمید ایڈووکیٹ نے 2002میں اس وقت مسلم لیگ کے ٹکٹ پر الیکشن لڑے جب کوئی بندہ مسلم لیگ کا ٹکٹ لینے کو تیار نہیں تھا 2008میں مشرف دور میں راجہ حمید ایڈووکیٹ کو گرفتار کر لیا گیا اور پارٹی چھوڑنے کیلئے دباؤ ڈالا گیا 21دن جیل کاٹنے کے باوجود راجہ حمید ایڈووکیٹ جبل استقامت ثابت ہوئے

میاں نواز شریف کے ساتھ ڈھٹ کر کھڑے رہے اور آج بھی شیر کے نشان پر الیکشن لڑنے کو تیار راجہ حمید ایڈووکیٹ کے ساتھ باقی 5امیدوار ایک پیج پر نظر آتے ہیں ذرائع کا کہنا ہے کہ اگر پارٹی شوکت بھٹی کو ٹکٹ دیتی ہے تو باقی پانچ میدوار کسی ایک کو نامزد کر کے آزاد حیثیت میں الیکشن لڑنے کو تیار ہیں جس سے نہ صرف راجہ جاوید اخلاص کو نقصان ہو گا بلکہ مسلم لیگ ن گوجرخان سے قومی اسمبلی کی نشست کے ساتھ ساتھ دونوں صوبائی اسمبلی کی نشستیں بھی کھو بیٹھے گی بات اگر زمینی حقائق کی کی جائے تو پارٹی میں اختلاف کی بنیادی وجہ 2018کے الیکشن میں جب راجہ حمید ایڈووکیٹ کو پی پی 9 سے پارٹی ٹکٹ کے لیے نامزد کیا گیا تو پارٹی ڈسپلن کو برقرار نہ رکھتے ہوئے راجہ حمید ایڈووکیٹ کی حمایت کے بجائے شوکت بھٹی نے جعلی ڈگری کیس میں تاحیات نااہلی کے باوجود اپنے حقیقی بھائی فیصل بھٹی کو پی پی 9 سے آزاد حیثیت میں الیکشن لڑانے کی ٹھان لی اور یوں مسلم لیگ ن کا ووٹ تقسیم ہو گیا اور راجہ حمید ایڈووکیٹ کو پی پی 9 سے شکست کا سامنا ہوا جس کا براہ راست نقصان راجہ جاوید اخلاص کو ہار کی صورت میں ہوااس کے برعکس 2013میں شوکت بھٹی کو پارٹی ٹکٹ کے لیے نامزد کیا گیا تو راجہ حمید ایڈووکیٹ نے نہ صرف کاغذات نامزدگی واپس لئے بلکے حلقہ میں شوکت بھٹی کی بھرپور انداز میں الیکشن کمپین چلائی اور شوکت بھٹی صوبائی اسمبلی کی نشست پر کامیابی سے ہمکنار ہوئے راجہ حمید ایڈووکیٹ کے دھڑے میں شامل بات قاضی عبدالوقار کاظمی کی کی جائے تو 2018 کے الیکشن کے بعد مسلسل پانچ سال سے اپنے حلقے میں آمدہ الیکشن کی تیاری میں مصروف دکھائی دیتے ہیں ووٹر سے مکمل رابطے میں ہیں قاضی عبدالوقار کاظمی بھی اپنی یو سی سے چیرمین کا الیکشن لڑ چکے ہیں اور کچھ عرصہ قبل راجہ جاوید اخلاص کے چہیتے اور پی پی 9 سے راجہ جاوید اخلاص کی جانب سے نامزد کردہ ایم پی اے کے امیدوار تھے وہ ابھی تک ڈٹے ہوئے ہیں امیدوار ایم پی اے پی پی 9 سابق چیئرمین سید قلب عباس اور امیدوار ایم پی اے سابق چیئرمین یحییٰ فیض بھی حلقہ میں بہترین ووٹ بنک رکھتے ہیں

مسلم لیگ ن کے پی پی 9 سے یہ پانچوں امیدوار ایک پیج پر نظر آتے ہیں اور 2018کے الیکشن میں پارٹی ڈسپلن کی واہلیشن پر آزاد حیثیت میں الیکشن لڑنے پر شوکت بھٹی کو کسی صورت تسلیم کرنے کو تیار نہیں ہیں واضح رہے کہ اس سے قبل کاہلی کھینگر سے مسلم لیگ ن کے دیرینہ ساتھی راجہ کرامت حسین مرحوم کے فرزند راجہ بابر کرامت کو بھی کچھ عرصہ راجہ جاوید اخلاص کی جانب سے ایم پی اے کا امیدوار نامزد کر کے حلقہ میں باقاعدہ الیکشن کے لیے ورک کرتے رہے بابر کرامت نے حلقہ پی پی 9 میں انتھک ورک کیا اور مضبوط سیاسی دھڑوں کو یکجا کر کے بہترین ٹیم بنائی لیکن راجہ جاوید اخلاص کی سیاسی پالیسیوں سے نالاں ہو کر مسلم لیگ ن کو ہمیشہ کے لیے خیر باد کہہ کر تحریک لبیک پاکستان میں شامل ہو گے اور آمدہ الیکشن میں تحریک لبیک پاکستان کے حلقہ پی پی 9 سے نامزد امیدوار برائے ایم پی اے الیکشن میں حصہ لے رہے ہیں اور پی پی 9 سے مسلم لیگ ن کے گلے کی ہڈی ثابت ہوں گے گوجرخان ہمیشہ سے مسلم لیگ ن کا گھڑ رہا ہے پارٹی کے اندر دھڑے بندی کی وجہ سے مسلم لیگ ن کا نظریاتی ورکر انتہائی مایوسی کا شکار ہے میاں برادران اور مسلم لیگ ن کی اعلیٰ قیادت کو حلقہ این اے 52 گوجرخان بلخصوص پی پی 8 اور پی پی 9 میں پارٹی کے اندر دھڑے بندی کا سنجیدگی سے فوری نوٹس لیتے ہوئے میرٹ پر ٹکٹ کی تقسیم کو یقینی بنانا ہو گا ورنہ2018 کی تاریخ کو دھراتے ہوئے حلقہ این اے 52 گوجرخان سے قومی اسمبلی کی نشست سمیت صوبائی اسمبلی کی دونوں نشستیں پر مسلم لیگ ن کو عبرت ناک شکست کا سامنا کرنا پڑے گا اور اگر ایسا ہوا تو گوجرخان میں مسلم لیگ ن ہمیشہ کے لیے دفن ہو جائے گی۔

اپنا تبصرہ بھیجیں