
ہر طرف بے تحاشہ اندھیروں کا راج ہے ہر سو گھور اندھیرا ہے ہاتھ کو ہاتھ سجھائی نہیں دے رہا سرپر کوئی سایہ نہیں راہ میں کوئی چھایا نہیں دل دھڑکتا ہے لیکن خوف سے آنکھوں میں منظر ہیں
لیکں وہ سارے بے رنگ ہیں پیروں میں مسافت بچھی ہوئی ہے لیکن منزل کا پتہ نہیں یہی پاکستانیوں کی کل کہانی ہے آئین وقانون کی خوش نما لفاظی سے پاکستانیوں کو آج تک کوئی سہولت نہ مل سکی
اگلے ماہ ہم پاکستان کی سالگرہ منانے کی تیاری میں ہیں وہ پاکستان جو قائداعظم محمد علی ؒجیسے عظیم لیڈر نے یہ سوچ کر آزاد کروایا کہ یہاں قوم امن وسکون برابری اور قانون کی عمل داری کے تحت اپنی زندگیاں آزادانہ طور پر گذاریں گے لیکن ہوا کیا ہم پر وہ لوگ مسلط ہوگئے
جن کے آباؤ اجداد پاکستان بننے سے قبل سامراج کے ایجنٹ کے طور پر جاگیریں اور خطابات سے نوازے جاتے رہے ان لوگوں کی سیاست میں آمد اور تھانے کچہری کی سیاست واداروں میں مداخلت نے اداروں کو عوام دشمن بنا دیااس وقت پاکستان میں ہر سرکارہ ادارہ مافیا کی طرح کام کررہا ہے
جن کام صرف لوگوں کی عزتیں اُچھالنا اور ان جیبوں پر ڈاکے ڈالنا ہی رہ گیا خصوصاً محکمہ پولیس ایک ایسا عفریت بن چکا ہے جس کی خون آشامی کی داستانیں تاریخ کا حصہ بن رہی ہیں گوجرخان سے ایک رپورٹ نظر سے گذری جس نے مجھے انتہائی افسردہ کردیا کیا اس قدر بے حسی اور سنگدلی ممکن ہوسکتی ہے
میں حیران ہوں کہ پولیس میں کس قدر پتھر دل لوگ موجود ہیں اخبار کی خبر کے مطابق گوجرخان تھانے کی حدود میں واقع گاوں مطوعہ ڈھوک راجپوتاں کے رہائشی ارشد محمود کی جانب سے ڈی ایس پی گوجرخان وسی پی او راولپنڈ ی کو دی جانے والی ایک درخواست میں بتایا گیا
کہ اس کی شادی شدہ بیٹی اپنے چار بچوں سمیت غائب ہے جبکہ اس کے خاوند نوید کا کہنا ہے وہ بچوں سمیت گھر سے کلر سیداں کے لیے نکلی تھی تاہم کلر سیداں میں مقیم ان کے عزیزوں کا کہنا ہے کہ خاتون کلر سیداں نہیں پہنچی درخواست میں خاتون اور بچوں کو بازیاب کروانے کی اپیل کی گئی
اخبار کی خبر کے مطابق گمشدگی کی ایف آئی آر دس جون کو درج کروائی گئی آج مورخہ 25 جولائی تک تادم تحریر خاتون اور اس کے بچے ؤبازیاب نہیں ہوسکے ہوسکتا ہے کہ اس تحریر کی اشاعت تک مزکورہ کیس کے تفتیشی کا دل پیسج جائے جو ناممکنات میں سے ہے اخبار کے مطابق متاثرہ فیملی نے میڈیا نمائندوں کو بتایا کہ ان کے کیس کا تفتیشی ساجد ثقلین مختلف حیلے بہانوں سے ایک لاکھ روپے اینٹھ چکا ہے
جب رشوت کا ایک ذریعہ میسر ہوچکا تو موصوف کی توجہ کمائی پر ہی ہوگی کام پر نہیں۔بتایا جاتا ہے کہ مذکورہ افسر ذیشان نامی شخص پر تشدد کیس میں بھی ملوث ہے
فیملی کے مطابق ان کی تفتیشی بدلنے کی درخواست پر بھی کاروائی نہیں ہوئی جبکہ
غریب باپ بیٹی اور اس کے بچوں کی بازیابی کے لیے مسلسل تذلیل کا شکار ہورہا ہے ایف آئی آر درج ہوئے لگ بھگ پچاس روز ہونے کو ہیں لیکن اب تک مظلوم باپ کو صرف لوٹا جارہا ہے
جبکہ غائب ہونے والی خاتون اور بچوں کی زندگی بارے کچھ کہا نہیں جا سکتا یہ حقیت ہے کہ دنیا میں انسان مسافر زندگی مسافت اور اعمال زاد سفر ہوتے ہیں کسی کو انسانیت کے لبادے سے نکل کر پتھر کی صورت ڈھل جانے میں صدیاں نہیں لگتیں.مذکورہ تفتیشی کو یاد رکھنا چاہیے
کہ اس خانہ خرابات سے ہر شخص کو رخصت ہونا ہے سو زندہ ضمیری کا مظاہرہ کریں اور ایماندارانہ طور پر اس خاندان کی داد رسی کریں۔شاید تیرے دل میں اتر جائے میری بات