گوجرخان پارکنگ کا مسئلہ،گاڑیوں کا جی ٹی روڈ پر قبضہ

معزز قارئین کرام! کسی شہر میں زمینی حقائق کے مطابق ترقی کیلئے اس کے نقشے کی تبدیلی انتہائی اہم ہوتی ہے، بڑے بڑے شہروں میں بڑے بڑے پراجیکٹس کیلئے بہت سارے کڑوے فیصلے کرنا پڑے ہیں، بدقسمتی سے گوجرخان شہر جب سے بنا ہے اور اب تک اسی آدھا کلومیٹر کے شہر میں کبھی فٹ پاتھ پہ قبضہ، کبھی سروس روڈ پر قبضہ، کبھی راستوں اور شاہراہوں پر قبضہ کرکے دھونس جماتے ہوئے غیرقانونی طور پر چھوٹے اور بڑے بزنس کرنے کی کوشش کی جاتی ہے، آدھا کلومیٹر کے اندر سارا شہر آباد ہے،تھانہ گوجرخان، سرکاری ہسپتال، عدالتیں، اسسٹنٹ کمشنردفتر، تحصیل آفس، اراضی ریکارڈ سنٹر، ڈی ایس پی دفتر، سرکاری و نجی کالج و سکولز صرف آدھے کلومیٹر کے اندر موجود ہیں، جہاں تحصیل بھر سے روزانہ آنے والے ہزاروں افراد پارکنگ نہ ہونے کی وجہ سے اپنی گاڑیاں جی ٹی روڈ پر پارک کرتے ہیں، جی ٹی روڈ کے ساتھ کثیر المنزلہ پلازے اور ان پلازوں کی پارکنگ نہیں ہے، گوجرخان شہر کرائے کے لحاظ سے مہنگا ترین شہر ہے اور سہولیات کے لحاظ سے تھرڈ کلاس شہر۔ شاید میرا یہ تھرڈ کلاس شہر لکھنا کچھ احباب کی طبیعت پر گراں گزرے لیکن جو حقیقت ہو اس کو تسلیم کرنا چاہیے، گزشتہ روز موٹروے پولیس کے
ایک ذمہ دار سے بات ہورہی تھی تو ان کا کہنا تھا کہ پارکنگ پلازہ کی تعمیر اس وقت گوجرخان شہر کیلئے اشد ضروری ہے تو میں نے ان سے یہ بات شیئر کی کہ تحریک انصاف کی حکومت جب آئی تو چند ماہ بعد ہی یہ بات سنی گئی تھی کہ بلدیہ گوجرخان نے پارکنگ پلازہ کی تعمیر کیلئے ٹریفک دفتر اور اس سے ملحقہ جگہ کو منتخب کیا ہے اور اس کیلئے کروڑوں روپے کے فنڈز بھی مختص کئے ہیں، پھر بلدیہ گوجرخان کے چیئرمین تو چلے گئے مگر منتخب ایم پی اے نے اس جانب کوئی توجہ دینا مناسب نہ سمجھا،نجی و سرکاری سکولز کی پارکنگ نہ ہونے کی وجہ سے سکول ٹائمنگ میں بچوں کو سڑک پر اُتارا جاتاہے اور سڑک سے بٹھایا جاتاہے، جی ٹی روڈ پر سکول ٹائمنگ کی گاڑیوں کا اس طرح کھڑا ہونا اور پھر بچوں کا پیدل سڑک پار کرنا کسی خطرے سے خالی نہیں ہے، جس سے کوئی بڑا حادثہ رونما ہو سکتاہے، اس جانب بھی راقم نے موٹروے پولیس کی توجہ مبذول کرائی جن کا یہی رونا تھا کہ پارکنگ نہیں ہے تو ہم ان کو کیسے مجبور کریں کہ آپ لوگ یہاں گاڑیاں نہ کھڑی کریں۔ سرکاری و نجی بینک ریلوے روڈ، سروس روڈ پر موجود ہیں، ایک بینک سبزی منڈی میں ہے، ایک بینک سکھو روڈ پر ہے، جن کے جنریٹر بھی روڈ پر فکس ہیں اور اس وجہ سے ٹریفک میں خلل پیدا ہوتاہے، بینک میں آنے والے گاڑیاں سڑک پر پارک کر دیتے ہیں، موٹرسائیکل پارک کرتے ہیں جس کے باعث ٹریفک جام روزانہ کا معمول ہے۔
گزشتہ روز اسسٹنٹ کمشنر گوجرخان، چیف آفیسر بلدیہ سے اس معاملے پر بات چیت ہوئی تو ان کا بھی سوال تھا کہ پارکنگ پلازہ کی یہاں تعمیر کہاں ہو؟ راقم نے انہیں انڈر پاس کے ساتھ ملحقہ اڈہ کی تجویز دی کہ جی ٹی روڈ کیساتھ ملحقہ ہے اور جگہ بھی کافی زیادہ ہے، پارکنگ پلازہ بننے سے بلدیہ کو آمدنی بھی ہوگی اور ساتھ ہی پارکنگ کا مسئلہ بھی حل ہوگا لیکن بات یہاں آکر اٹک گئی کہ یہ جگہ این ایچ اے کی ملکیتی ہے اور این ایچ اے سے این او سی لینا جان جوکھوں کا کام ہے، انجمن تاجران کے صدر راجہ جواد نے جنرل بس سٹینڈ کا مشورہ دیا کہ یہ جگہ بھی این ایچ اے کی نہیں ہے اور یہاں پر پلازہ بھی کافی بڑا تعمیر ہو سکتاہے جو کہ قابل عمل بات بھی ہے، اب مسئلہ یہ ہے کہ ضلعی انتظامیہ کروڑوں روپے کا پراجیکٹ اپنے طور پر شروع نہیں کر سکتی جب تک منتخب قیادت اور حکومت پنجاب اس معاملے میں پوری طرح سنجیدہ نہ ہو۔ منتخب ایم پی اے چوہدری جاوید کوثر نے آج تک گوجرخان شہر کی عوام کے مفاد کے کسی پراجیکٹ کی طرف سنجیدگی نہیں دکھائی جس کے باعث شہر مسائلستان بنا ہوا ہے، جن کو آئندہ الیکشن میں شاید گوجرخان کی عوام بھرپور جواب دیں گے۔
قارئین کرام! ضرورت اس امر کی ہے کہ گوجرخان شہر کی تاجر برادری، سیاسی قائدین، انتظامیہ ایک جگہ بیٹھ کر سنجیدہ طور پر سر جوڑے اور شہر کی انتظامی صورتحال پہ سیر حاصل گفتگو اور بحث مباحثہ کیا جائے، شہر کو مسائل کی دلدل سے نکالنے کیلئے کچھ لائحہ عمل مرتب کیا جائے اور ضروری سرکاری و نجی عمارتوں،تھانے، کچہری، عدالتوں، بینکوں کو شہر سے ایک دو کلومیٹر ہٹ کر شفٹ کرنے پر غور کیا جائے تاکہ شہر میں روز بروز بڑھتے ٹریفک، تجاوزات، سیکورٹی، حادثات کے مسائل میں کچھ کمی واقع ہوسکے۔ والسلام

اپنا تبصرہ بھیجیں