گوجرخان میں ن لیگ دھڑے بندی کا شکار

طالب حسین آرائیں/انسان جاہ وچشم میں رواداری۔رشتے داری کو نظر انداز کرنے اور مفاد پرستی کی کتنی حدیں پھلانگ لیتا ہے اس کا احساس کبھی بھی صحیح وقت پر نہیں ہوتا کیونکہ مفاد پرستی کا عنصر صحیح اور غلط میں تمیز کرنے ہی نہیں دیتا اس بات کی سچائی کو پرکھنا ہو تو گوجر خان کی سیاست پر نگاہ ڈالیں جہاں کی سیاسی جماعتوں کے رہنماوں میں عہدوں اور ٹکٹوں کے لیے رسہ کشی عروج پر ہے دنیا میں سب سے زیادہ آسان کام جھوٹ بولنا اور ڈھٹائی سے اس جھوٹ پر ڈٹے رہنا ہے اور یہ کام گوجر خان کے سیاست دان بہت خوبصورتی سے کرتے ہیں خصوصاً لیگ اس معاملے میں زیادہ ماہر ہے گوجر خان کی سیاست میں ایسے بازی گر موجود ہیں جنہیں بازی لگانے اور سچ کو دبانے میں کمال حاصل ہے اس کے باوجود جب ان کے گرد سچ کا گھیرا تنک ہوتا ہے تو سانس لینا بھی دشوار ہوجاتا ہے۔غلطی پر ندامت اچھی بات ہے لیکن دیر سے احساس سوائے پچھتاوے کے اور کچھ نہیں دے سکتا۔مسلم لیگی رہنماو¿ں نے بھی 2013اور 2018پر ندامت محسوس کی ہے اور اب غلطیوں کے ازالے کی کوششیں جاری ہیں۔جس کے لیے چوہدری خورشید زمان ایکٹو ہیں اور وہ دونوں گروپوں کے افراد سے ملاقاتوں کا سلسلہ جاری رکھے ہوئے ہیں عہدوں کی رسہ کشی تحریک انصاف میں بھی جاری ہے اس حوالے سے پیپلز پارٹی خوش قسمت جماعت ہے جسے قومی وصوبائی کے امیدوار ایک گھر سے میسر ہیں اور جیتنے کی صلاحیت بھی رکھتے ہیں اور انہیں پارٹی سے کسی دوسرے رہنما کی جانب سے چیلنج بھی درپش نہیں۔پی ٹی آئی کی نسبت ن لیگ میں امیدواروں کی ایک طویل فہرست ہے حلقہ این اے 58میں ٹکٹ کے حوالے سے راجہ جاوید اخلاص اور چوہدری خورشید زمان مد مقابل ہیں جبکہ پی پی 8سے متعدد امیدوار موجود ہیں لیکن قابل ذکر صرف دو ہیں ان میں مسلم لیگ فرانس کے چیئرمین راجہ علی اصغر اور چوہدری افتخار وارثی دو ایسی شخصیات ہیں جو اس حوالے سے اہمیت کے حامل ہیں۔چوہدری افتخار وارثی سیاسی میدان کے پرانے تجربہ کار اور میچور کھلاڑی ہیں وہ اپنے پتے ہمیشہ درست وقت پر درست انداز میں کھیلنے کے فن سے آشنا ہیں وہ بڑے پیمانے پر اپنا ذاتی ووٹ بینک بھی رکھتے ہیں۔ دوسری جانب راجہ علی اصغر ایسی شخصیت ہیں جو فرانس مسلم لیگ کو لیڈ کرنے کے علاوہ اعلیٰ لیگی قیادت سے مسلسل رابطے رہنے کے باعث قیادت کے انہتائی قریب تصور کیے جاتے ہیں راجہ علی اصغر بارے کہا جاتا ہے کہ وہ اپنے حلقے کے لوگوں سے بھی رابطے میں رہتے ہیں انہوں نے گوجر خان میں عوامی رابطے بارے ایک سٹ اپ بنا رکھا ہے جو ان کی غیر موجودگی میں حلقہ کے عوام کی خوشی غمی میں ان کی نمائندگی کے فرائض سرانجام دیتا ہے راجہ علی اصغر غریب پرور ہونے کے ساتھ ساتھ انتہائی ملنسار شخصیت ہیں وہ بھی اپنا ذاتی ووٹ بینک رکھتے ہیں ان کے بھائی اپنی آبائی یونین کونسل سے چیئرمین شپ بھی جیت چکے ہیں جن کی الیکشن کمپین بھی راجہ علی اصغر نے ہی چلائی تھی وہ بھی اس حلقہ کے لیے بہتر امیدوار ثابت ہوں گے۔راجہ علی اصغر چوہدری افتخار وارثی اور چوہدری خورشید زماں میں ایک بات کامن نظر آتی ہے کہ تینوں رہنماءپارٹی میں گروپ بندی ختم کرنے کے خواہاں ہیں۔راجہ علی اصغر نے گذشتہ دنوں خود سے منسوب چوہدری ریاض کی حمایت پر مبنی خبر پر بڑا مثبت اور محتاط ردعمل دیتے ہوئے واضح کیا کہ وہ کسی گروپ کا حصہ نہیں ہیں بلکہ وہ گروپنگ ختم کرنے کو کوشش کرنے والے رہنماو¿ں کے ساتھ ہیں۔دیر آئے درست آئے کے تحت اگر مسلم لیگی رہنما پارٹی ڈسپلن کو فالو کریں تو گوجر خان مسلم لیگ اپنا کھویا ہوا مقام دوبارہ حاصل کر سکتی ہے۔پارٹی میں گروپ بندی اور انتشار ختم کروانے کے لیے چوہدری افتخار وارثی‘راجہ علی اصغر اور چوہدری خورشید زمان کی سوچ کو اپنانا ہوگا خصوصاً علی اصغر اور چوہدری افتخار وارثی اس کام کو بخوبی سرانجام دے سکتے ہیں بس اپنی تصاویر و اپنی تعریف اور خود نمائی کے مرض میں مبتلا خودساختہ رہنماو¿ں کی سازشوں سے بچنے کی ضرورت ہے جو سیاسی طور اپنا پولنگ جیتنے کی صلاحیت بھی نہیں رکھتے اسے بونے جو خود کو باون گز سمجھتے ہیں انہیں کارنر کر کے ہی مسلم لیگ متحد ہوسکتی ہے اگر مسلم لیگ نے 2018 دہرایا تو اس بار یہ دونوں نشستیں پیپلزپارٹی باآسانی جیت سکتی ہے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں