گوجرخان میں صحت اور تعلیم کی صورتحال ابتر

قارئین کرام! پاکستان میں ایک نعرے پہ دہائیوں سے سیاست چلتی آ رہی ہے‘ روٹی کپڑا اور مکان‘ڈکٹیٹرشپ ہو یا لولی لنگڑی جمہوریت، عوام کے نصیب میں بھوک افلاس بیروزگاری اور تنگدستی ہی ہے‘ گوجرخان کو ضلع بنانے والے ن لیگ میں شامل ہوئے تو تحریک دم توڑ گئی، ضلع بنانے کی آواز ن لیگ دور میں اُٹھی تو تحریک انصاف اور پیپلز پارٹی نے آواز بلند کی، تحریک انصاف نے ضلع‘یونیورسٹی اور ٹراما سنٹر کے وعدوں پہ الیکشن لڑا اور اب پونے چار سال ہونے کو ہیں ایک بھی وعدہ پورا نہ کر سکے، ٹراما سنٹر کی بلڈنگ مشینری کو ترس گئی، سپیکر پنجاب اسمبلی سابق وزیراعلیٰ چوہدری پرویز الٰہی کو ایک تقریر سنائی گئی تھی، اس تقریر میں بتایا گیا تھا کہ جناب سپیکر یہ بلڈنگ آپکی وزارت اعلیٰ کے دور میں بنی تھی مگر اب تک ٹراما سنٹر نہیں بن سکا، یہ اس حکومت کے پہلے سال کی بات ہے اور اس کے بعد منتخب ایم پی اے کی ہمت نہ ہوئی کہ اسمبلی میں بولیں یا یوں کہہ لیں ”چراغوں میں روشنی نہ رہی”چنگا میرا گورنمنٹ ہائیر سیکنڈری سکول کی بلڈنگ کی تعمیر ن لیگ کے دور میں شروع ہوئی تھی، پھر فنڈز کی عدم دستیابی کے باعث کام روک دیا گیا تھا، اس کے بعد موجودہ منتخب ایم پی اے جاوید کوثر نے بار بار بیانات دیئے اور ذرائع کے مطابق 70/80 لاکھ کے فنڈز منظور کرائے، ٹھیکیدار مرضی والا نکلا جو چار دن کام کرتا ہے اور پھر مہینوں چھٹی پہ چلا جاتا ہے ابھی تک بلڈنگ مکمل نہیں ہوسکی اور امید یہی ہے کہ اس حکومت میں اس کے مکمل ہونے کے چانسز بہت کم ہیں۔لاکھوں آبادی کے واحد بوائز کالج جس کا نام پاکستان کے پہلے نشان حیدر کے نام پہ ہے گورنمنٹ سرور شہید نشان حیدر ایسوسی ایٹ کالج فار بوائز گوجرخان کا بوسیدہ بلاک گِرا کر نئے بلاک کی تعمیر کیلیے فنڈز منظور کرائے گئے، کرونا کی وجہ سے فنڈز روک لئے گئے، پھر یوں ہوا کہ طلباء اس ایک بلاک میں پڑھنے لگے جس کو راجہ پرویز اشرف نے تعمیر کرایا تھا، کرونا وباء کو آئے دو سال گزر گئے مگر ابھی تک فنڈز جاری نہ ہو سکے اور نہ کام جاری ہو سکا، جس سے طلباء کی تعلیم میں حرج ہو رہا ہے، داخلے محدود ہو چکے ہیں اور لوگ اپنے بچوں کو سرکاری کالج میں داخلہ نہ ملنے کے سبب پرائیویٹ کالجز میں داخل کرانے اور بھاری فیسیں دینے پر مجبور ہیں۔گورنمنٹ ایسوسی ایٹ کالج برائے خواتین گوجرخان میں طالبات کی تعداد تقریباً 2500 ہے جن کو پڑھانے کیلیے ٹیچرز ناکافی ہیں، کئی خالی نشستیں ہیں جن پر سالہا سال سے تعیناتی نہیں ہوئی اور ایک ٹیچر کئی سو طالبات کو پڑھانے پر مجبور ہے، اب معلوم ہوا ہے کہ 5 کمرے کالج میں بننے جا رہے ہیں مگر ٹیچرز کی تعیناتی تاحال ترجیحات میں شامل نہیں ہے۔تحصیل بھر کے بنیادی مراکز صحت میں ڈاکٹرز، نرسز، پیرامیڈیکل سٹاف کی نشستیں خالی ہیں، پوری تحصیل کی لاکھوں آبادی کے لیے ایک تحصیل ہیڈکوارٹر ہسپتال ہے جہاں پر سہولیات ناپید ہیں‘ دولتالہ میں ہسپتال کی اشد ضرورت ہے لیکن مقامی ایم پی اے دولتالہ بائی پاس بنوانے کے لیے دوڑ لگائے ہوئے ہیں نہ جانے انہیں اس سے کیا مفاد حاصل ہو گا۔ سڑکیں، گلیاں، نالیاں دھڑا دھڑ بن رہی ہیں مگر تعلیم و صحت کا کوئی حال نہیں اور وہی سابقہ حکومتوں کی طرح کے کارنامے انجام دیئے جا رہے ہیں۔اگر یہی کام کرنے تھے تو شہباز شریف ہی کافی تھا جو پُل انڈرپاس اور سڑکیں بنانے میں لگا رہتا تھا۔منتخب ایم پی اے کے پڑوس میں واقع مشہور قصبہ اسلام پورہ جبر کے ویٹرنری ہسپتال اور ہیلتھ سنٹر (ڈسپنسری) میں ڈاکٹرز کی عدم دستیابی پر گزشتہ سال جبر میڈیا اور راقم نے آواز اٹھائی تھی اب معلوم ہوا ہے کہ ڈاکٹرز کی دستیابی دور کی بات اب دونوں سرکاری عمارتوں کو تالے لگ گئے ہیں اور عوام ذلیل و خوار ہو رہے ہیں۔قارئین کرام! نئے پاکستان کے منتخب نمائندوں کی ترجیحات آپ نے ملاحظہ کر لی ہوں گی، انکی ترجیحات بھی گلی، نالی، سڑک کی تعمیر، بجلی میٹر، گیس میٹر لگوانا ہے اور اس کام کیلیے انہوں نے ہر محکمے میں اپنے مشیر رکھے ہوئے ہیں جو دیہاڑیاں لگا رہے ہیں۔ پھر جب ان کے کارناموں سے پردہ اٹھایا جائے تو نام نہاد کارکنوں کو ایکٹو کر کے میڈیا نمائندوں پہ گند اچھالتے ہیں‘ وہ جو ن لیگ اور پیپلز پارٹی کیخلاف بولتے اور لکھتے ہیں وہ اچھے صحافی ہیں اور جو اس حکومت کیخلاف بولے اور لکھے وہ لفافہ صحافی ہو جاتا ہے۔ لیکن انکو یاد رکھنا چاہیے کہ میڈیا پہ پابندیاں اگر مشرف نہیں لگا سکا تو آپ کس کھیت کی مولی ہو، مشرف نے پوری قوت اور توانائیاں میڈیا کو خاموش کرانے کے لیے صرف کیں، چینلز اور اخبارات بند کئے لیکن اس کے باوجود میڈیا اپنی آزادی کی جنگ لڑتا رہا اور آج بھی لڑ رہا ہے۔ میرے خیال میں میڈیا کو اتنا خطرہ ڈکٹیٹرشپ سے نہیں رہا جتنا خطرہ اس نام نہاد جمہوریت سے ہے جو منتخب نمائندوں سے قوانین منظور کرانے کی بجائے آرڈیننس لاتے ہیں اور اس کے پیچھے چھپ کر وار کرتے ہیں۔ بہرحال وقت بتائے گا کہ آزادی کس کا مقدر ٹھہرتی ہے۔ والسلام

اپنا تبصرہ بھیجیں