ہم دیکھتے ہیں کہ چرندے پرندے درندے خزندے اور آبی جانور نہ ٹھٹھے لگاتے ہیں نہ ہنستے ہیں نہ طنز کرتے ہیں نہ ادھر اُدھر کی ہانکتے ہیں بس انسان ہی ایسی مخلوق ہے جو ٹھھٹہ لگاتی ہے۔طنز کرتی ہے۔بات یہ ہے کہ دوسری تمام مخلوق شاید انسانوں کی طرح بے حس نہیں جو اس نامہربان دنیا میں ٹھٹھے کریں یا اپنی طاقت کا ناجائز استعمال کریں۔جبکہ انسان بہت حساس کہلانے جانے کے باوجود بے حس ہے اور عاقل وباشعور ہونے کے باوصف بردباد نہیں انسان نے لاکھوں برس جو ترقی کی ہے اس کی اصل وجہ صرف اس کا عقل مند ہونا ہی نہیں اس کا بے حس ہونا بھی ہے وہ کیسی کیسی قدریں انتہائی بے حسی اور بے رحمی کے ساتھ پامال کردیتا ہے اور ساتھ ہی ان قدروں کے قصیدے بھی پڑھتا ہے جانور قدریں پامال نہیں کرتے۔انسان عقل وشعور رکھتا ہے اور جانوراس سے محروم ہوتے ہیں۔انسان عقل وشعور رکھ کر زمین پر تباہی پھیلاتا ہے اپنی نوع کے افراد کا بڑی مہارت اور ہنر مندی سے خون پیتا اور بہاتا ہے۔ قانون بناتا ہے اور خود ہی اسے توڑتا ہے۔ طاقتور اپنی طاقت کے بل بوتے پرسب کچھ جائز قرار دیتا ہے جائز قرار دلواتا ہے یہی ہمارے معاشرے کی بگاڑ کا سبب ہے ہمارا معاشرتی المیہ یہ رہا کہ ہم سب اپنی اپنی جماعت اور اپنے لیڈران کی ہربات جائزوناجائز بات پر سر دھنتے اور واہ واہ کرتے ہیں تالیاں پیٹتے ہیں بھنگڑے ڈالتے ہیں۔سوچنا یہ ہے کہ اگرعقل معقولیت کا سرچشمہ نہیں ہے تو معقولیت کا سرچشمہ آخر کیا ہے۔معقولیت تو یہ ہے کہ جو دیکھو اس پر ردعمل دو۔غلط کو غلط کہنا اور اس پر ردعمل دینا معقولیت ہے لیکن ہمارے یہاں غلط کا دفاع اور غلط کو سپورٹ معقولیت سمجھی جاتی ہے۔
میری یہ ساری تحمید ایک خاص نکتے پر ہے گوجرخان کے عوام اس وقت جرائم پیشہ افراد کے نرغے میں ہیں۔ تھانہ گوجرخان اور پولیس چوکی قاضیاں کے انچارج صاحبان کی تعیناتی کے بعد سے یہ علاقے علاقہ غیر کا منظرپیش کررہے ہیں۔ روزانہ کی بنیاد پر چوری چکاری‘ڈاکے اور لوٹ مار کے واقعات رپورٹ ہورہے ہیں۔ شاید ہی کوئی دن خیر سے گذرتا ہو پولیس کی نااہلی کے باعث اس وقت عوام عدم تحفظ کا شکار ہیں۔ایسے میں ہمارے سیاسی اکابرین کی ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ انتظامیہ سے اس سنگین معاملے پر باز پرس کریں۔نااہل اورنکمے افسران کو گوجرخان سے ٹرانسفر کروائیں اور یہاں ذمہ دار افسران کی تعیناتی ممکن بنائیں۔لیکن اس کے برعکس ہمارے لیڈران کرائم کی بڑھواتی کے باوجود پولیس کو سب اچھا کاسرٹیفکٹ جاری کرتے نظر آرہے ہیں۔
گذشتہ دنوں صحافیوں کی کسی تقریب میں سابق وزیراعظم و موجودہ اسپیکر قومی اسمبلی راجہ پرویز اشرف کے بھائی راجہ جاوید اشرف کے اس بیان نے عوام کو بہت کچھ سوچنے پر مجبور کردیا کہ گوجرخان میں کرائم مکمل کنٹرول میں ہے پاکستان دنیا کا واحد ملک ہے جہاں سیاسی فرد کے عزیر رشتے بھی انتظامیہ کو آگے لگائے رکھتے ہیں پوسٹنگ ٹرانسفر تک میں ان کی انوالمنٹ ہوتی ہے۔کوئی نہیں پوچھتا کہ میاں آپکو یہ اختیار کس نے تفویض کیا ہے۔راجہ جاوید اشرف کی جانب سے پولیس کے دفاع میں بیان پر مجھے کسی سیاسی جماعت کے لیڈر کسی سیاسی جماعت کے کارکن سول سوسائٹی یا سماجی حلقوں کی جانب سے کوئی تنقیدی بیان دیکھائی نہیں دیا کیونکہ ہم سب منفاقت کی کشتی پر سوار ہیں کسی نے راجہ جاوید اشرف سے سوال نہیں کیا کہ جناب من آپ کس بنیاد پر گوجرخان کو کرائم سے پاک قرار دے رہے ہیں جبکہ روزانہ لوٹ مار کی درجنوں وارداتیں رپورٹ ہورہی ہیں اور کسی ایک واردات کے ملزمان پکڑے نہ جاسکے۔ان کے بیان والی شب ہی روکھیا شریف میں تین گھروں میں نقب زنی کی ورادت کرکے جرائم پیشہ افراد نے ان کو ان کے بیان کی حقیقت بتادی۔
گوجرخان جرائم سے پاک ہونے کا بیان تو اپنی جگہ ایک جوک ہے لیکن کیا علاقے میں چرس‘شراب‘ شیشہ جواء کے اڈوں کی موجودگی جرائم میں شمار نہیں ہوتی۔کیا راجہ جاوید اشرف کو علاقے میں منشیات کی فراوانی کے باوجود ایس ایچ او گوجرخان ایمان دار اور فرض شناس لگتا ہے۔سمجھ نہیں آتی کہ گوجرخان کے عوام اس وقت ڈاکوؤں‘چوروں‘لٹیروں اور منشیات فروشوں کے نرغے میں ہیں اور جاوید اشرف پولیس کو بہترین کارکردگی کے سرٹیفکٹ کس طرح بانٹ رہے بیں۔راجہ صاحب افسران نے آتے جاتے رہنا ہے لیکن آپ نے گوجرخان کے عوام کے درمیان رہ کر سیاست کرنا ہے عوام کی مشکلات اور مصائب کا ٹھٹھہ نہ اُڑائیں ان کے زخموں پر مرہم رکھیں نمک نہ چھڑکیں۔